یارڈھاڈی‘ عشق آتش لائی ہے

بدھ 11 مارچ 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

خواجہ فریدعاشق صادق تھے۔ جو کوٹ مٹھن سے ریت اڑاتی روہی تک دیوانہ وار گھومتے،''محبوبہ''سیاحت کے سبب دریافت ہوئی یاسیاحت محبوبہ کے باعث زندگی کا معمول بنی' درست طور معلوم نہیں مگر دریائے سندھ سے صحرائے چولستان تک کٹھن'دور اوردشوارگزار مسافت شاعر کی زندگی کا معمول بنی رہی۔ صحرائی سفر تو ڈاچی کے سبب ممکن رہا' گرچہ یہ کسی طور راحت بخش نا تھا' مگر عشق آتش ایسی آگ لگائی تھی کہ نا دن کا پتا چلتا نا رات کا، جب دھیان گیان بن چکا ہو تو' دکھ تکلیف کاہے کا؟ بس فراق کی آگ کی تپش جلاتی اور جذبات کو بھڑکا کرپھر کوٹ مٹھن سے روہی کی طرف سفر شروع کرادیتی۔

پیلو گنتے اور پکتے دیکھتے، محو رقص بگولوں کی جولانیوں،منہ زوری اور آزاد روی میں محبوب کی قامت تراشتے۔

(جاری ہے)

سردیوں کی یخ بستہ ریت اور گرما کی جھلسا دینے والی لوُ' انکی محویت اور شدت عشق کو مانند نا کرپاتی۔عشق یک شخصی ارتکاز کی کمان سے نکل کر کل انسانی محبت کی تلاش میں سفر طے کرنے لگا۔اب محبوب کا سراپا علامت تھا اور سامنے خلق تھی، خواجہ ‘زمانوں کا ادراک پاتے مگر گرد ونواح کے مکینوں کے درد کو بیاں کرتے۔

ذات سے نکلے تو وسیع تر ہوتے گئے،کوٹ مٹھن کا فرید' روہی کی وسعتوں میں کھونے کی بجائے کائناتی ادراک کی طرف بڑھنے لگا۔     شاعری اورموسیقی کا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ شاعری کو موسیقی کی اور موسیقی کو شاعری کی اسی طرح ضرورت ہوتی ہے جیسے جسم کو زندگی کی۔پھر زندہ جسم رقص ناکرے تو یہ زندگی جمود کی موت کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ خواجہ کے تخیل نے رقص کرتی موسیقی کو اشعار کی شکل میں مرصع کیا ‘ یوں جیسے جھرنوں سے گرنے والا پانی موسیقیت سے بھرپور گیت گاتا اور رقص کرتا بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔

یہاں پر صحرائی ٹیلوں سے اٹھکلیاں کرکے گزرنے والی ہواؤں کی موسیقی بگولوں کو ناچنے پر مجبورکرتی تو خواجہ فرید پیلوکی جھاڑیوں سے رنگوں کا حظ اٹھاتے جھوم اٹھتے اور پھر ماحول انکی روح کو گرفت میں لیکر موسیقی سے بھرپور شاعری کوتخلیق کرتا۔ فریدن سائیں کے عشق کا بھانبھڑ اشعار کا روپ دھارتا اور وسیب کو مہکاتا گیا، ساکت و جامد سرائیکی وسیب' خواجہ فرید کے وصل و فراق کی واردات کو انکے اشعار کے ذریعے جان پاتا اور سر دھنتا۔

یہاں سے اس مضمون کا کچھ حصہ ان داستان گووں کی سینہ بہ سینہ روایات کیلئے وضع کیا جارہا ہے جن کا بیان ہے کہ عشق کی خوشبو نے' نواب آ ف بہاولپور ''صبح صادق''کو بھی متوجہ کیا۔داستان عشق کے ساتھ طویل ترین مگر مسلسل سفر' صعوبتوں کا احوال بھی پہنچا دیا۔ نواب تو پھر نواب ٹھہرے۔اپنے لئے سفری بجرا بنوایا تھا۔یہ1867 کی بات ہے کشادہ بحری جہاز کا نام دریائے سندھ کی مناسبت سے ''انڈس کوئین'' رکھا۔

پھر ایک روایت کے مطابق روہی میں اپنی محبوبہ کے عشق میں بے قرار عاشق صادق شاعر خواجہ غلام فرید کو گفٹ کردیا گیا' کہ کم سے کم کوٹ مٹھن سے چاچڑاں تک تو سفر پرلطف اور شاعرانہ طبع کو اور جلا بخش سکے۔۔۔۔ مگریہ کہانی حقائق سے کچھ مطابقت رکھنے سے عاری ہے۔کیوں کہ ریاست بہاولپور کے استعمال میں جو فیری تھی وہ دریائے سندھ کی بجائے دریائے ستلج میں چلتی تھی اور اسی مناسبت سے اسکا نام ”ستلج کوئین“ تھا۔

سندھ طاس معاہدے کے بعد جب ستلج دریا پانی سے محروم ہوا تو وہاں اس بڑی کشتی کا چلنا ممکن نا تھا لہذا نواب آف بہاولپور نے یہ بڑی کشتی حکومت پاکستان کے حوالے کردی۔ حکومت نے اس کو دریائے سندھ میں چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے مابین آمد ورفت کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا۔      یہ ایک خوبصورت ’فیری‘تھی، جو شیردریاء کی شان وسطوت سے عین مطابق رکھتی تھی۔

دو بڑے دخانی انجن جو سینکڑوں مسافروں اور اسباب کو منزل پر پہنچانے کی طاقت رکھتے، دو منزلہ جہاز دریائے سندھ کی طغیانی و جولانی میں بھی اپنی چال کی متانت برقرار رکھنے کی قدرت رکھتا۔داستانوں کو غذا مہیا کرنے والوں کی روائت کے مطابق کہا جاتا ہے کہ جہاز کا باورچی خانہ ایک وقت میں چارسوکے قریب مسافروں کو کھانا فراہم کرنے کی قدرت رکھتا تھامگر یہاں صریحاََمبالغہ آرائی کا خدشہ موجودہے۔

ایک تو کوٹ مٹھن اور چاچڑاں کا دریائی سفر اتنا مختصر ہے کہ اس دوران ٹھیک طریقے سے چائے سے لطف اندوز ہونا بھی ممکن نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے اس کشتی نما جہاز کا باورچی خانہ اگر تھابھی تو عملے کی خوراک کے حوالے سے قائم ہوگا۔البتہ ہر روز سینکڑوں مسافرچاچڑاں شریف اور کوٹ مٹھن کے مابین سفر کرتے ،مال اسباب کی آمدورفت ہوتی۔ پھر روائت کے مطابق اس جہاز کو آگ لگ گئی اور یہ نقل وحمل کے قابل نا رہا۔

اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے حکومت کی طرف سے ایک اور بحری بجرا فراہم کیا گیا جو ”انڈس کوئین “سے نسبتاََ چھوٹا مگر علاقائی مسافت کے حوالے سے بھرپورافادیت کا حامل تھا۔ اس بجرے کو بھی بڑے انجنوں کے ذریعے دھکیلا جاتا،اس جہاز کی دوبلند چمنیاں دھواں اڑاتی اور جہازدریائے سندھ کا پانی چیرتے منزلوں کی طرف بڑھتے جاتا۔ اس جہاز میں مسافر ڈیک پر ہی سفر کرتے ۔

۔۔۔۔۔۔وقت کی چال کو قیامت یوں ہی نہیں قرار دیا گیا،وقت کی چال اور اسکی قیامت خیزی نے داستان محبت کو تو اور جلابخشی مگر مبالغہ آرائی کی بنا پراسکی ایک نشانی بن جانے والے اس بحری جہازوں کو حالات کے رحم وکرم کے حوالے کردیاگیا۔۔۔۔۔۔2012 میں انڈس کوئین کی بحالی کا پروگرام بنایاگیا۔اسکو
سیاحتی ہوٹل بنانے کے چرچے اخبارات کی زینت بنے رہے۔

اس ضمن میں ضلعی حکومت اور محکمہ ہائی ویز کے آفیسر بلند وبانگ دعوی کرتے رہے ۔ مگر عملی طور پر کیا ہوا؟وہی ہوا جو ملک عزیز میں ہوتا آیا ہے۔ خاص طور پر بے نظیر شہید پل بن جانے کے بعد سفری ضرورت کیلئے کشتیوں کی ضرورت کافی حد تک کم ہوچکی ہے اوردریائے سندھ کے آرپارُ عام سفر سڑک کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔پھر پانی کا رخ بدل جانے کی وجہ سے اب یہ جہاز پانی سے کئی کلومیٹر دورخشکی کے اس ٹکڑے پر اپنی شکستگی پر ماتم کناں ہیں جہاں گرد ونواح سرسبز فصلیں لہراتی نظر آتی ہیں۔

یہ اب دریاء کے شمالی حفاظتی پشتے کے عین پہلو میں استادہ ہیں۔ یہاں پر یہی دو جہاز نہیں بلکہ جابجاچھوٹی بڑی قدیم طرز اور جدید وضع کی کشتیاں شکست وریخت کاسفر طے کررہی ہیں۔کسی سرکاری محکمے کے چھ اہلکار ان جہازوں کی عظیم الشان باقیات کی حفاظت کی غرض سے‘ دراصل مستقل آرام فرما ہیں، اب زیادہ فکر جہازوں کی نہیں اس عملے کو دیمک لگنے کی ہے۔
 جس ملک میں قلعہ دراوڑسمیت سینکڑوں قلعہ جات،کھدائی کی منتظرقدیم مدفن بستیوں سمیت عالمی سطح پر مشہورہزاروں سال دریافت شدہ پرانی تہذیبوں کے آثارمعدوم ہوتے چلے جارہے ہوں وہاں ان کشتیوں کی بقاء اور بحالی کی فریاد کس سے کی جائے اور کون سنے گا؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :