تاریخ نویسی

منگل 14 جولائی 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

تاریخ کو اگر اسی اسلوب میں سمجھاجائے جیسے ہمارے ہاں لکھی یا بیان کی گئی ہے تو وہاں(اکثریت میں ہونے کے باوجود) عام لوگوں اور محنت کشوں کی حیثیت ان گھوڑوں سے بھی کمترہوگی جن کو شاہ سوار‘ ناکارہ ہونے پر جنگلوں اور بیابانوں میں چھوڑ دیاکرتے تھے۔سرکاری تنخواہ داروں کی لکھی ہوئی تاریخ ''عوام'' کو شعوری طور پر غیر اہم گرداننے پر مصر ہے۔

اس سے بھی بڑھ کر اس کشمکش کو یکسر غائب کردیا گیا جس کے سبب انسانی سماجوں میں انسانوں کے مختلف طبقاتی گروہوں کے مابین حقوق کے حصول اور حق دینے سے انکار پر مبنی جدوجہدکی گئی۔بادشاہوں، بہادروں،علاقائی اور قومی ہیروز ، مذہبی اور نسلی لڑائیوں کو انسان کی بنیادی لڑائی یعنی محنت کرنے والے اور محنت لوٹنے والے کے مابین کشمکش کی تاریخ کو شعوری طور پر نظرانداز کرنے کاچلن سرکاری تاریخ نویسی میں غالب طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

تاریخ لکھنے والوں کی بہت بڑی اکثریت طبقاتی کشمکش کی تاریخ کو ہی ماننے سے انکاری ہے۔جب کہ کسی بھی عہد کے تاریخی قصے کہانیوں میں بادشاہوں،وزیروں اور عمائدین ہی نظر آتے ہیں جب کہ آبادی کے بیشترحصوں ‘ حتہ کہ آبادیوں کو خوراک مہیا کرنے والے اہم پیداواری عامل یعنی خوراک پیدا کرنے والے کاشتکار کے کردار کو بھی اسکی پوری اہمیت سمیت تسلیم نہیں کیا گیا۔

فلسفہ،،طبیعات،ریاضی، فلکیات،سائنسی اور معاشرتی علوم میں پیش رفت ایک مسلسل عمل ہے ،جس کے پیچھے صدیوں کی محنت موجود ہے مگر تاریخ نویسی اس سلسلے میں سہل پسند واقع ہوئی ہے۔بہت سی دریافتوں کو تو اس یا بعد کے عہد کے حکمرانوں سے جوڑنے تک کی جسارت کی جاتی رہی ہے۔ ایجادات ہر عہد میں کم یا زیادہ ہوئیں مگر موجدین کی بجائے” محلاتی بجھکڑ “تاریخ کی سیاہ راتوں میں چمکتے ستارے بنا کر پیش کئے گئے ہیں۔

زندگی کی بقاء کی جدوجھد اور اسکے اسباب کو معرض وجود میں لانا ایک طویل تاریخی عمل ہے، مگر تاریخ نویس ذرا جلدی میں دکھائی دیتے ہیں۔وہ زندگی اور سماجوں کی لاکھوں سالوں کی ارتقائی داستان کی بجائے، بسے بسائے شہروں کے وسط قائم‘ بلند وبانگ محلات میں‘ عین اس جگہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں جہاں ایک پر شکوہ تخت پر جلالی بادشاہ براجمان ہے۔ہزاروں لاکھوں نفوس کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے تاریخ کی کہانیوں کے سارے کردار تیس چالیس افراد تک محدود کردیے جاتے ہیں جو اس بادشاہ کی مدح سرائی میں مشغول ہوتے ہیں۔

تاریخ نویسی میں صنفی تعصب کا مظہر بھی عام ہے،ہر طرف مردانہ بالادستی دکھائی دیتی ہے اس حقیقت کے باجود کہ انسانی تاریخ کا ابتدائی دور جو کہ ہزاروں یا شائدلاکھوں سالوں پر محیط تھا وہاں عورت ہی خاندان یا گروہ کی سربراہ ہوا کرتی تھی۔اس قسم کی تاریخ نویسی نے بہادری کی صفت کو ”مردانگی“ کے استعارے تک میں بدل دیا ہے۔         اشیاء ضروریات کیلئے پیداواری عمل کسی نا کسی شکل میں موجود رہا تبھی نسل انسان اپنا وجود برقراررکھ پائی‘ مگر یہ اہم عمل کیسے ارتقائی مراحل طے کرتا رہا ؟ اس پر ماضی بعید کے تاریخ نویس زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے نظر آتے،شائد اسکی وجہ انکا’ محنت کرنے والے طبقے ‘اور حرام خورگروہوں کی وضاحت کا خوف ہو ۔

تاریخ میں صرف ایک (طویل)عہد طبقاتی کشمکش سے مبر ا نظر آتا ہے ،یہ وہی عہد ہے جب ذاتی ملکیت(میری اور تیری کے جھگڑے) کا وجود نہیں تھا بلکہ معاشی سرگرمیاں اور خوراک وزندگی کے لوازمات مشترکہ ہونے کی وجہ سے تنازعات کی ضرورت سے عاری تھیں۔یہ ایک غیر طبقاتی عہد تھا۔اسی لئے اسکو قدیم اشتمالی یا اشتراکی عہد کہا جاتا ہے۔ قدیم ترین انسانی سماج جو کہ اشتراکی بنیادوں پر استوار تھا ،اسکے بارے میں صرف مادیت پسند تاریخ دان ہی لب کشائی کرسکے مگر روائتی تاریخ نویسی انسان اور انسانی سماج کی پیش رفت کو غیر سائنسی اندا ز میں پیش کرنے کیلئے مختلف قصے کہانیوں اور غیر مصدقہ روایات کے گرد ہی گھومتی نظر آتی ہے۔


قدیم اشتراکی نظام کے بعد غلام داری نظام جو ہزاروں سالوں پر محیط رہا اور اسکی باقیات شہروں اور آبادیوں کے کھنڈرات،میناروں،اہراموں،مجسموں، اوزاروں،ہتھیاروں،مصوری سمیت مختلف نشانیوں موجود ہیں ۔تضادات اور عاملین کا باہمی جدل اس کائنات،انسانی زندگی اورسماجی پیش رفت کااہم اصول رہا ہے۔ جہاں غلام داری نظام آبادیوں کے بڑے حصوں کو غیر انسانی استحصال اورجبر کا نشانہ بنائے ہوئے تھا وہیں جبری محنت سے ناصرف عجوبے تخلیق کئے جارہے تھے بلکہ آبادی کے کچھ حصوں کو محنت سے فراغت کے باعث علم وتحقیق کیلئے وقت بھی میسر تھا۔

یوں یہ دوربہیمانہ جبر اور بربریت کے باوجود انسانی تاریخ کی بڑے بڑے حاصلات کی بنیادیں فراہم کرنے کیلئے سازگار ثابت ہوا۔اس دور کی بنیادوں سے جدید ادوار کی تیز ترین پیش رفت کا مواد اہل علم کیلئے کسی خزانے سے کم نا تھا۔ علم وفنوں اورسائنس کے بنیادی قوانین کی دریافت یا ماضی کے علم اورنظریات کو آگے بڑھانے میں اس عہد کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

مگر اس عہد کی علمی حیثیت کی بجائے اگر چند بادشاہوں کی لشکر کشی ،جنگ وفتوحات کے گرد ہی تاریخ کومقید کردیا جائے ،جیسا کہ بہت سے تاریخ نویسوں نے کیا ہے ،تو ناصرف بہت سے شعبوں،علوم،تحقیق،ایجادات،فنون اور خود سماجوں کے ارتقاء کی تاریخ اپنے تسلسل میں نظر نہیں آتی اور تاریخ میں ایسے خلاء کو فرضی کہانیوں،دیومالائی داستانوں اور لایعنی قصوں سے پر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

تاریخ کے مادی پیش رفت کے عوامل کو نظرانداز کرنے سے فرد اور طبقہ بالا کے چند افراد کا قد سینکڑوں سالوں کی انسانی پیش رفت سے بھی بڑا بنا کر پیش کردیا جاتا ہے۔یوں بہت سے ناگزیر اور فیصلہ کن عوامل کو نظراندا ز کرکے دیگرثانوی اور مجہول معروضی معاملات کو فیصلہ کن عنصر بناکرپیش کردیا جاتا ہے۔ نسل انسان کا کوئی بھی ماضی‘ خواہ وہ عہد لاکھوں سال پہلے کا ہو یا اسکو گزرے چند سوسال ہوئے ہوں،معاشی ضروریات سے بے نیاز نہیں رہا۔

زندگی کی بقاء کی پہلی ضرورت ”خوراک“ہی وہ ناگزیر عامل تھا جس نے انسان کی تمام ترحرکت کی پہلی بنیاد رکھی۔ زندگی کی بقاء کی دوسری ضرورت ”حفاظت“ اور ماحول کوزندگی کیلئے سازگار بنانا تھا۔ خوراک،جسم کی موسموں ،ماحول اوردیگر خطرات سے حفاظت اور نسل کی افزائش جیسے معاملات کے گرد انسان کی حرکیات کو نظرانداز کرنا گویا تاریخ کے بڑے حصے سے اعلان لاتعلقی کے مترادف ہے۔

انسانوں کے کسی گروہ کو اپنا خاندان ،علاقہ اور مانوس ماحول کر ترک کرکے دوردرازعلاقوں یا ممالک پر لشکر کشی کے پیچھے بنیادی معاشی عامل کو یکسر نظرانداز کرکے صرف کسی ”ہیرو“کے ذاتی اوصاف اور ترجیحات قراردینا کسی طور بھی قرین قیاس نہیں ہوسکتا۔فرد کا مصمم ارادہ ،بہادری،دلیری،مہم جوئی،تدبر ،ذہانت یا دوسرے اوصاف غیر اہم نہیں ہیں ، مگرتاریخ دان دوسرے انسانی سماج میں زیادہ تر مالکان اور آقاؤں کے ہی متذکرہ اوصاف اجاگر کرنے میں مصروف نظرآتے ہیں۔

جب کہ انہی ادوار میں غلاموں کی بے نظیر بغاوتیں،جدوجہد اور لڑائیاں ‘ جو وہ غلام داری سے نجات کیلئے کررہے تھے کو نظرانداز کرنے پر مصر نظرآتے ہیں۔یقینا اس کی وجہ تاریخ دانوں کے گروہ کا غلاموں کے آقاؤں کی تنخواہوں اور مراعات کے بدلے تاریخ لکھنے کی نوکری کرنا تھا۔معاشی جبرکو قائم رکھنے کیلئے جبر ،ظلم واستبداد اورمحنت کے استحصال کے خلاف انسانی جدوجہد اسکی سرشت ہی نہیں تھی بلکہ اسکی معاشی آزادی کی بنیادی ضرورت تھی۔

اسکا مظاہرہ ہمیں غلام داری نظام میں ہی بڑی بڑی بغاوتوں،مہمات اور جنگوں کی شکل میں نظرآتی ہے۔ ایسی بہت سی مہمات کو بعد ازاں تاریخ نویسوں نے مذہبی رنگ روپ دیکر توانا کردیا اور غلام داری کے خلاف بے نظیر جدوجہد کا حلیہ بگاڑ کررکھ دیا گیا۔ صنعت،دست کاری،دھات سازی،حربی' ساز وسامان کی تیاری اور جدت سازی،اشیائے ضرورت کی پیداوار،اسٹیٹ آف دی آرٹ عمارات کے تخلیق کار گویا خود بادشاہ اور انکے عمائدین ہی تھے' کا تاثر ثابت کرتا ہے کہ ایسی ''تاریخ'' پورے حقائق کو چھپا کر محض فرد یا چند افراد کے کارناموں تک محدود کردی گئی ہے۔

یہ جھوٹی،بے ہودہ اور حقائق سے عاری تاریخ نویسی ہے۔جس کو من وعن قبول کرنے سے صرف مجہول ومخصوص مقاصد پر مبنی پراپیگنڈے کو تاریخ سمجھنے کی غلطی کی جاسکتی ہے۔ تاریخ کا جائزہ کسی بھی عہد کے پیداواری عاملین کے ارتقائی جائیزہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تاریخ کو سمجھنے اور کسی سماج کی ساخت کا جائزہ لینے کیلئے اس عہد کی تعمیرات،تخلیقات،ایجادات،طرز پیدوار،پیدواری رشتوں کا مطالعہ ناگزیر ہے۔

ہمارے چہار طرف بہت ہی اعلی فن تعمیر پر مبنی پرانے
قلعوں کی فصیلیں اور عمارات موجود ہیں۔قلعوں کی تخلیق وتعمیر‘ حتی کہ ہر عہد کی قدیم عمارتوں کو تاریخ کی حفاظت سے محفوظ کرنا برحق ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ماضی کے واقعات کسی سرکاری قصیدہ گو طرز کے یا پراپگنڈے کے نکتہ نظر سے تعینات ”تاریخ نویس“ کے رحم کرم پر نا چھوڑا جائے ۔ ایسے قلعے'جو کبھی بھی اپنی مملکت، کا سامراجی حملہ آوروں کی یورشوں کا دفاع کرنے میں ناکام رہے،انکی فنی ساخت کے ساتھ اس عہد کی جنگی مہارت اور حربی ساز وسامان کا موازنہ کرکے غلبے اور شکست کا سائنسی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

کہیں کہیں تاریخ کو فرد کے فیصلہ کن کردار کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا پوری وضاحت سے بیان کرنا ضروری ہے۔ مگر ساری تاریخ کو شخصی اوصاف کے سپرد کرنا بطور خاص اس عہد کے محنت کش طبقے،عام لوگوں،ھنرمندوں،تخلیق کاروں اور اہل علم ودانش کو یکسر نظر انداز کرنے اوردیگر ناگزیر عوامل کی نفی کرنے کے مترادف ہے،یہ تاریخی حقائق پر فرد کی بالا دستی کی غلطی ہوگی اور اسکے اثرات مہلک ہوتے ہیں۔

ایسی غلطی یادانشورانہ بددیانتی جعلی اور خیالی ہیروازم کوعمومی شعور پر مسلط کرنے کا باعث بنتی ہے جو نسلوں کی بے ہمتی،انحصارپسندی،معجزوں اور نجات دھندوں کے انتظار پر محیط بربادی پر منتج ہوتی ہے۔اسی طرح تعمیرات،محلات،باغوں اور بلند وبالا میناروں وعبادت گاہوں، کو بھی اسی پیرائے میں اور پوری وضاحت کیساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ سامراجی غلبے کو گہرا کرنے کے طریقوں کا جائیزہ لیا جاسکے۔

مطالعہ کے راستوں کو عقائد و تعصبات،سیاسی ضروریات،ماضی پرستی اورثقافتی پسماندگی کے عاملین کی دھول سے چھپانے کے عمل کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگرچہ اس طرز کو بے
 شماررکاوٹوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغلوب قوموں اور تہذیبوں کو جدید طرز پیدوار،آلات حرب،جدید علم وتکنیک کے سامنے سرنگوں ہونے کے عمل کو قلعی طور پر مذاہب،قومی شاونزم،نسلی برتری یا فرد کی طاقت،عقل،تدبیر اور ناقابل تسخیر شخصیت کا شاخسانہ قرار دینا محض پراپیگنڈے کے مقاصد کو تو پورا کرسکتا ہے مگر تاریخ کے تقاضوں پورا نہیں کرسکتا۔

نئی نسلوں تک تاریخی حقائق کو من وعن پہنچانا چاہئے
ناکہ سیاسی ضروریات کے تحت توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے۔حملہ آور سامراجیوں کے معاشی اور غاصبانہ کردار کو واضع طور پر بیان کرنا چاہئے تاکہ سماجوں کے طرز ارتقاء کو تمام حقائق اور تضادات سمیت سمجھا جاسکے۔ اسی طرح تاریخ اور حملہ آوروں کی قبضہ گیریت کو انکے معاشی تقاضوں کی حقیقت کے تحت ہی سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے نا کہ حملہ آوروں کو فضول قسم کے قصے کہانیوں میں لپیٹ کر نجات دھندہ بنانا چاہئے۔

ایسا کرنا تاریخ کے بخیے ادھیڑنے اور نئی نسل کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ البتہ فن تعمیر اور دیگر فنی حوالوں کو اجاگر کرنا ضروری یے۔ خاص طور پر تاریخی مادیت کے اصولوں کے تحت تبدیلیوں اور مظاہر کے تعمیراتی فن پر اثرات کا مطالعہ'عہد اورمخصوص سماج کے طرز ارتقاء کو واضع کرنے میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔ فن تعمیر کے مطالعے سے متعلقہ عہد کے ذرائع پیدوار اور خاص طور پرپیداواری رشتوں کی نوعیت کی وضاحت ہوتی ہے اور ساتھ ہی تمدن کے ارتقاء کی کیفیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔

تاریخ بہت کچھ الگ سے واضع کرتی ہے خاص طور پر کہ سب کچھ ایسے ہی نہیں تھا جیسا نظر آر یا ہے اور اس سے ہم یہ بھی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ سب کچھ ایسا ہی نہیں رہے گا جیسے اب ہے۔ قدیم زمانوں کی جدید انسانی تہذیبوں کے ادوار کے کھنڈرات جن میں مہر گڑھ،موھنجودڑو،ہڑپہ وغیرہ کی تمدنی ساخت' عمارتی وضع اور طرز تعمیر وہاں کی معاشرت کے خدو خال اور باہمی تعلق کو واضع کرتے ہیں۔

مذکورہ تہذیبوں کا ہر تعمیراتی کھنڈر اور باقیات' انفرادیت پر مبنی تاریخ اور اصولوں کی نفی کرتی اور آبادیوں کے مل جل کر رہنے اور اشتراکیت کی دلیل کے طور پر تاریخی اسباق وضع کرتی دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ متقاضی ہے کہ اسکو (چالاکی اور شعوری طور پر بنائے گئے)غیرسنجیدہ بلکہ مجرمانہ طرز مطالعہ کی بجائے تاریخی مادیت کے اصولوں کے تحت پرکھا اور سمجھا جائے۔

اس طرز مطالعہ سے سمندر کو کوزے میں یوں بند کیا جاسکتا ہے کہ ”معلوم تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے،غلام کی آقا کے خلاف،مزارعہ کی جاگیردار کے خلاف،مزدورکی سرمایہ داروں کے خلاف۔ تاریخ کے مطالعے کا یہی پہلو واضع کرتا ہے کہ یہ کشمکش کمزور یا طاقت ور،ناکامی یا فتح یابی کے باجود قائم ودائم ہے اور سماجوں کی بنیادی حرکیات اسی اصول پر مبنی ہیں۔ یہی تاریخ واضع کرتی ہے کہ اگر پہلے سے موجود اب نہیں رہا ہے تو موجودہ سامراجی سرمایہ دارنہ برتری اور جبرپر مبنی نظام جلد یا بدیر طبقاتی کشمکش پر مبنی جدوجہد کے نتیجے میں ماضی کی تاریخ میں بدل جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :