" تعلیم کی بھوک"

جمعرات 17 ستمبر 2020

Rabia Sultan

رابعہ سلطان

آج بہت دنوں بعد دل نے چاہا کہ کیوں نہ ٹی وی دیکھ کروقت کو گزارا جائے۔ اسی سوچ نے مجبور کیااور روموٹ اٹھا کر ٹی وی کو چلایا۔ٹی وی کا شوق مجھے تب سے نہیں جب سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نے پروان چڑھنا شروع کیا۔اس کی وجہ مصروفیت نہیں بلکہ بیزاریت ہے۔اس ملک کے نیوز چینلز پر چیختےچلاتے اینکروں سے ، ڈراموں میں دیکھائی جانے والی روتی سسکتی ہوئی عورتوں سے، جھوٹ بولتے ہوئے سیاستدانوں سے ،  گالی گلوچ کرتے ہوئے معزز  افسرانوں سے ،اور  بے ہودہ دیکھائی جانے والی کمرشلز سے ۔

بہرحال آج بھی ٹی وی چلایاتو ایک لمبی چینل کی قطار میری توجہ کی منتظر تھی۔اور میرے ہاتھ میں پکڑے اس روموٹ کے رحم و کرم پر تھی ۔میں نے بھی اپنے اختیارات کا خوب استعمال کیا اور در پہ در چینلز کی تزلیل کرتے ہوئے آگے بڑھتی گئی۔

(جاری ہے)

آخر کار مجھے ترس آیا اور ایک چینل پر ٹھہر گئی ۔کچھ ہی دیر میں مجھے سمجھ آیا کہ یہ چند معزز لوگوں کا ہجوم یہاں بیٹھ کر یہ سوچ رہا ہے کہ تعلیم سے وابستہ اداروں کو کھولنا چاہیے یا مزید بند رکھنا چاہیے ۔

ایک دانش اور مفکر صاحب علم بول (یہ وہ تعارف ہے جو ان کے نام کے نیچے لکھا ہوا تھا )کہ ہمیں اپنی نسل بہت پیاری ہے ہم نہیں چاہتے کہ ایک مزدور کا بچہ سکول جائے اور بیمار ہو کر گھر آئے اس طرح وہ گھر والوں کو اور باہر والوں کو  بیماری منتقل کرنے کا ذریعہ بنے گا لحاظہ یہ بات تو ذہنوں گمان سے نکال دیں کہ تعلیمی ادارے کھولے جائیں گے۔  اگر ایسی صورت حال رہی تو ہم پورے سال کے لیے بھی بند کر سکتے ہیں اور اس بات پر کوئی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔

ابھی ان کی بات شاید مکمل ہی ہونے پائی تھی کہ ایک اور مشہور شخصیت جو پاکستان کہ ایک معزز  خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ایک دم بھرکیلے لہجے میں بولے! حضور عالی !! بات سنے ایک مزدور جو باہر کام کر رہا ہے وہ اپنے بچے کو بیمار نہیں کر سکتا کیا ؟اگر اتنا ہی خدشہ تھا تو باقی ہر چیز کھولنے کا کیا مقصد ہے آپ کا ؟ بس مجھے اسی بات کا جواب دیں ۔ایک اور صاحب فکر چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے بولے ( ان کے اس انداز سے معلوم ہورہا ہے کہ وہ آگ میں تیل ڈالنے لگے ہیں ،گویا انہوں نے ایسے ہی کیا وہ بڑے میٹھے لہجے میں ) میرے پیارے بھائی صاحب ، آپ کو نہیں لگتا کہ پاکستان میں کرونا صرف تعلیم سیکھنے آ رہا ہے  کیوں کہ اس  بیماری کا سب سے زیادہ خطرہ تعلیمی اداروں کو ہے ۔

شاید تبھی آپ لوگ ان اداروں کو بند رکھنا چاہ رہے ہیں۔ اسی بات پر ایک قہقہہ لگایا۔ جس پر ان کا ساتھ اینکر اور دوسرے بیٹھے میزبان نے بھی دیا سامنے والے بھی خوبصورت تبیت کے مالک انسان تھے ۔ ایک دم بولے !... ہم نے آخر اس ملک کے لیے کیا کیا نہیں کیا یہ ملک کہاں تھا؟  ہم کہاں لے آئے؟ خزانے خالی تھے ۔۔۔۔۔۔ اس ملک کا دیوالیہ نکلا ہوا تھا؟ ان کی آواز میں اب تیزی آنے لگی۔

گویا اب مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ بات کا رخ اب موڑ دیا گیا ہے اب ممکن ہی نہیں کہ واپس اسی بات پر آیا جائے ۔ کیوں کہ اب الزام تراشیاں شروع ہوچکی تھی۔ اب ان کی گفتگو کسی ساس بہو کی لڑائی کا منظر پیش کرنے لگی ۔تھوڑی دیر میں نے ان کو اور سنا پھر کچھ خاص دلچسپ باتیں نہ لگیں ۔ تو ٹی وی کو بند کرنا ہی مناسب لگا۔خاموشی میں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ اس ملک میں طلبہ کے نام پر ایک مفلوج فوج تیار کی گئی ہے۔

اس بات کا اندازا اس ملک کی خاموشی سے لگایا جا سکتا ہے۔جو مسلسل تعلیم یافتہ طبقے سے آرہی ہے۔اس ملک کے کونے کونے کے طالبہ کی حالت جا کر دیکھ لیں سب خوشی سے ناچتے پھرتے ہیں۔کسی کے ماتھے پر افسردگی کی ایک بھی لکیر نہیں۔کسی کو کوئی ملال ہی نہیں۔صرف یہی نہیں اس ملک کے سیاستدان ہمارے  پروفیسرز  اور ٹیچرز نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔سب اپنی جگہ خوش ہیں ۔

تعلیم کو کبھی اس ملک میں سنجیدگی کے ساتھ نہیں دیکھا گیا۔اس ملک میں مزدور کے بھوکے مر جانے کا تو سب کو افسوس ہے مگر کیا کسی کو اس بات کا علم ہے کہ اس ملک کے بچے تعلیم کی بھوک کا شکار ہیں ۔یہاں تعلیم کی کوئی اہمیت ہی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں تعلیم یافتہ تو بہت ہیں شعور رکھنے والے بہت کم ہیں۔یہ قوم بھوک سے تو شاید بچ جائے  مگر تعلیمی فاقوں سے ضرور مر جائے گی۔

یہاں کھنڈر  بنیں گے چلتی پھرتی لاشوں کے اور وہ لاشیں ہوں گی جہالت کی۔ ان کھنڈرات کی شروعات اب ہوتی دیکھائی دینے لگی ہے۔ یہ دلیل اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس ملک میں تہذیب اور تمیز ختم ہو گئی ہے ۔ ہر طرف بے ہنگم سی صورت حال ہے اور اس معاشرے کی بدحالی کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے ڈگریوں کی گھٹریاں اُٹھائے یہ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ۔

جن کو ہم پڑھا لکھا کہتے ہیں۔ درحقیقت ان کا بھی کوئی قصور نہیں ۔ جس بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ہی غلط بتایا جائے ۔ جس کو سکول میں اساتذہ اور گھر میں والدین  بچپن سے نمبروں کی رئیس میں ڈال دیں ۔ وہ ایک پڑھا لکھا تو ضرور بنے گا ایک ایسا انسان جو  پیسہ ،گھر ،بنک بیلنس بنانے کو اپنی کامیابی اور اپنی زندگی کا اولین مقصد سمجھتا ہے۔ مگر ایسا انسان کبھی بھی ایک اچھے معاشرے کا ایک اچھا شہری ثابت نہیں ہوگا۔

اس بے ہنگم معاشرے کے سدھار کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتا ۔ سب خاموش ہیں۔ ہر شخص صرف اپنے پیٹ کی طرف دیکھتا ہے۔ اور پیٹ بھی ایسا جس کی لالچ ختم ہونے کو نہیں۔ خدارا۔۔!!  اس نسل کی طرف متوجہ ہوں جو آپ کا سرمایہ ہے۔ اس قوم کے نوجوان کو  علم کی ضرورت ہے۔ تعلیم سے دوری ہماری بنیادیں کھوکھلی کر دیے گی اگر اب بھی توجہ نہ دی گئی اور حالات خراب ہوگئے تو اس  سب کے ذمہ دار یہ خاموش سیاستدان اساتذہ کرام ہیں ۔جنہوں نے اس کاہل اور سست نسل کو پروان چڑھانے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا  ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :