ہوشربا مہنگائی …!

جمعرات 11 جولائی 2019

Rana AIJAZ HUSSAIN Chauhan

رانا اعجاز حسین چوہان

پی ٹی آئی کی حکومت اس دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ وہ چوروں ، لٹیروں کا کڑا احتساب کرکے غریبوں کو ریلیف فراہم کرے گی اور عوام خوشحال ہوں گے۔ مگر جس دن سے پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈی ختم کردی گئی ہے، روز بروز بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ ہے کہ رکنے کو نہیں آرہا۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے اثرات کے بارے سن کر غریب اور متوسط آمدنی والے افرادافسردہ اور پریشان ہیں۔

بجلی ، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا ، گھی ، چینی سمیت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ حکومت نے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرتے ہوئے آنے والے مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے عوام کو بے آسرا چھوڑ دیا ہے ۔

(جاری ہے)

اوپر سے ہمارے وزیر ریونیو کی دیدہ دلیری دیکھیں جو پوری قوم ، پوری پارلیمنٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نئے ٹیکسز کاحجم صرف 516 ارب روپے ہے۔

اب عوام ان کی سنیں جنہوں نے بجٹ بنایا ہے لکھوایا ہے یا ان کی جنہوں نے صرف زبانی کلامی بجٹ پڑھ کر پارلیمنٹ کو سنایا ہے۔ یہ تو بھلا ہوآئی ایم ایف کا جس نے ہمارے بجٹ کا اصل چہرہ دکھا تے ہوئے مہنگائی کے نئے سونامی کی پیشگی اطلاع دے دی تاکہ عوام الناس اس ریڈ الرٹ کے بعد اپنے اپنے بچاؤ کی تیاری مکمل کر لیں، اور بتادیا کہ ٹیکسز کاحجم 516 ارب نہیں بلکہ فی الحقیقت قوم پر 733 ارب 50 کروڑ کے ٹیکس مسلط کئے گئے ہیں۔

دوسری طرف حکومت نے آئی ایم ایف قرضے کی منظوری پر اطمینان کا سانس لیتے ہوئے عوام کو خوشخبری سنائی ہے کہ اس کے بعد دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں مثلاً عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ سے اربوں ڈالر کے رکے ہوئے قرضے بھی ملنا شروع ہوجائیں گے ۔ عوام حیران ہیں کہ اسے خوشخبری سمجھیں یا بری خبر،جنہیں مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے ۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کیلئے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کیلئے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کیلئے تجارت کرنا مشکل اور کسان کیلئے کاشتکاری مشکل ہوگئی ہے ۔ نجی کاروباری اور صنعتی اداروں کے ملازمین کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ جانے کب ان کی ملازمت ختم ہوجائے، کیونکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے ، ایف بی آر کے نئے قوانین اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو رہے ہیں۔

کھاد کی بوری پر سبسڈی ختم کردی گئی ہے ، اتنی مہنگی کھاد کیساتھ کاشتکار کیسے فصل لگائے گا اور اگر فصل کاشت ہوگئی تو مہنگی پیداوار کون خریدے گا۔اب جبکہ آئی ایم ایف کا قرضہ منظور ہوگیا ہے حکومت کو ان اصل وجوہات پر توجہ دیناچاہیے جو پاکستان کے معاشی مسائل کی جڑ ہیں۔ ان میں سے ایک بین الاقوامی تجارت میں بہت بڑا خسارہ ہے یعنی ایکسپورٹ کم اور امپورٹ زیادہ ہے۔

اس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی طلب زیادہ اور رسد کم ہے ۔ چنانچہ ڈالر پر دباؤ بڑھتا ہے اور اس سے ڈالر کی قدر گر جاتی ہے ، اس کا حل یہ ہے کہ ایکسپورٹرز کو آسانیاں فراہم کی جائیں، بجلی اور گیس سستی فراہم کی جائے ، قرضوں پر شرح سود ختم کی جائے اور ایکسچینج ریٹ میں بے یقینی ختم کی جائے مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس معاملے پر توجہ کے لیے تیار نہیں ہے ۔

چنانچہ ایکسپورٹ کیسے بڑھیں گی اور اگر نہیں بڑھ سکیں تو تجارتی خسارہ برقرار رہے گا اور ڈالر پر دباؤ کم نہیں ہوگا۔معاشی مسائل کی دوسری وجہ ٹیکس وصولی کا محدود دائرہ ہے ، اس وجہ سے ٹیکسوں کی وصولی کم ہوتی ہے ، دوسرے الفاظ میں اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے اور یہ ایک صاف کھلی بات ہے کہ جس گھر، جس کاروبار اور جس ملک کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں وہ زیادہ عرصے چل نہیں سکتا۔

ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ تر کارپوریٹ سیکٹر اور تنخواہ دار طبقے پر ہے، پاکستان میں خدمات کا شعبہ جی ڈی پی میں60فیصد ہے جبکہ ٹیکس وصولی میں اس کا حصہ صرف3 فیصد ہے ۔ اس کا مطلب بہت سے ادارے ، بہت سے کاروبار اور بہت سے شعبے ٹیکس نیٹ میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ایف بی آر اور دوسرے سرکاری ادارے مختلف اقدامات کر رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں کاروبار ہی سکڑ رہا ہو، معاشی سرگرمیاں گرتی جارہی ہوں ٹیکس کس طرح جمع ہوگا۔

حکومت نے ٹیکس وصولی میں اضافہ کی کوششوں کیساتھ سال2019-20 کیلئے ہدف 5555 ہزار ارب روپے رکھا ہے جو موجودہ ٹیکس وصولی سے 30فیصد زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے نامور تجربہ کار اور ماہرین معیشت متفق ہیں کہ ٹیکسوں کی وصولی کیلئے یہ ہدف غیرحقیقی ہے اور تقریباً ناممکن ہے ۔ اس وقت چاہے وہ کارخانے دار ہوں، ٹرانسپورٹرز ہوں، تعمیراتی شعبے سے منسلک افراد ہوں، کار ڈیلرز ہوں یا عام دکاندار سب ہی حکومتی اقدامات کیخلاف احتجاج کرنے اور ہڑتال کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔

اس صورتحال میں ٹیکس کس طرح جمع ہوسکتا ہے۔اسی طرح حکومت نے بڑے زور وشور سے اعلان کیا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ اکاؤنٹ ہولڈرز کا ڈیٹا ہمیں مل گیا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساڑھے سات ارب ڈالر بیرون ملکوں میں جمع ہیں، ہم یہ رقم ملک میں واپس لیکر آئیں گے اور ڈالر کا مسئلہ حل ہو جائے گا مگر حکومت اس اعلان کے بعد کوئی عملی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

اسی طرح اثاثوں کی ڈیکلریشن پر حکومت نے درخواستیں بھی کیں اور دھمکیاں بھی دیں مگر صرف70ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو سکا،ان دونوں مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی اور بیروزگاری کا کیا حال ہوگا۔ موجودہ حالات میں حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ ساٹھ ستر سال سے بگڑا ہوا سسٹم ایک سال میں ٹھیک نہیں ہوسکتا ہے، لہٰذا ایسے اقدامات اور کوششیں کی جائیں کہ ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ غریب عوام پر نہ پڑے ۔ غریب اور پسماندہ طبقوں کو مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ سے بچانا ہی حکومت کی اصل کامیابی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :