
خدمت انسانیت کی روشن مثال، عبدالستار ایدھی
بدھ 7 جولائی 2021

رانا اعجاز حسین چوہان
(جاری ہے)
ایدھی بذات خود ایک ایسا ادارہ تھے جو کہ ملک کے پس ماندہ طبقے کے لیے کام کرتا تھا، انہوں نے مشکل وقت بھی دیکھا ، ان کو سیاسی معاملات میں بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اور ناکام ہونے پر ان کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا، جس پر ان کو کچھ عرصے پاکستان سے باہر بھی رہنا پڑا لیکن انہوں نے اپنے مشن خدمت انسانیت کو جاری رکھا۔ اس عظیم فلاحی کارکن نے ایدھی فاؤنڈیشن چھ دہائیوں تک کچھ ایسے چلائی کہ حکومت بھی وہ کام نہ کر سکی جو اس تنظیم نے کیا۔ بلا شبہ ایدھی فاؤنڈیشن نے نہ صرف پاکستان بلکہ بر صغیر میں فلاحی کام کو ایک انقلابی شکل دی۔ ایدھی فاؤنڈیشن اس وقت بھی وسیع پیمانے پر ایمبولنس سروس، مفت ہسپتال، اور لاوارث بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے لیے دارالامان چلا رہی ہے۔ اس ٹرسٹ نے بیس ہزار سے زیادہ لاوارت نومولود بچوں کی زندگی بچائی، پچاس ہزار سے زیادہ یتیموں کی کفالت کی اور چالیس ہزار سے زیادہ نرسوں کو ٹریننگ دی۔ ملک کے چپے چپے میں ایدھی ٹرسٹ کے کلینک، پناہ گاہیں، بزرگوں اور عورتوں کے لیے گھر اور ایسے ہی بے شمار منصوبے ملیں گے۔ کوئی حادثہ ہو، قدرتی آفات یا دھماکہ، چند منٹ بعد سائرن بجاتی، اور تیزی سے موڑ مڑتی سفید سوزوکی گاڑیاں جائے وقوع پر پہنچتی ہیں، جیسے کہ وہ اگلی گلی میں اسی واردات کا انتظار کر رہی تھیں۔ تربیت یافتہ عملہ پھرتی سے اتر کر زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو اس مہارت سے سٹریچروں پر ڈال کر ایمبولینسوں میں منتقل کرتا ہے جیسے وہ سالہاسال سے سے بس یہی کام کرتا چلا آیا ہو۔
بلاشبہ ایدھی کی ذات پر جو اعتبار تھا، وہ قوم نے کسی دوسرے کو نہ بخشا۔ کیونکہ انسانیت کے اس عظیم محسن نے ان گلی سڑی لاوارث لاشوں کو بھی اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر دفن کیا جن کو ان کے وارثان بھی چھونے کو تیار نہ تھے۔ ان بچوں کو اس نے نئی زندگی دی جن کو کوڑے کے ڈھیر پر مرنے کے لیے پھینک دیا گیا تھا۔ بے شمار یتیم اور بے سہارا ان کے صدقے ایک نئی زندگی پا گئے۔ انسانیت کی بے لوث خدمت میں عالمی شہرت حاصل کرنے کے باوجود ، پاکستان کے اکثر سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے برعکس ایدھی نے سادگی سے زندگی گزاری اور یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان پر محبت اور چندوں کی بارش کی، وہ انتہائی معمولی قمیص شلوار پہنتے، ان کے پاس ملیشیا کے سستے ترین کپڑے کے صرف دو جوڑے تھے، ایک میلا ہو جاتا تو دوسرا پہن لیتے جبکہ جوتوں کا ایک ہی جوڑا گزشتہ 20 سال سے ان کے استعمال میں رہا۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں اس بات کو یقینی بنا دیا تھا کہ وہ اپنے پیچھے ایک ادارہ چھوڑ جائیں جو ان کے بعد بھی انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتا رہے، آج ایدھی ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے اہل خانہ اور ایدھی فاؤنڈیشن کے کارکنان ان کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں، یہ موت کے بعد امر ہو جانے کی ایک علامت ہے۔ آج ایدھی صاحب تو ہم میں نہیں مگر ان کی عظیم خدمات کی بدولت ان کا نام پاکستان میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ سڑک پر چلتی ہوئی ہر ایدھی ایمبولینس ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی، اور ہمارے دلوں سے ان کے لیے دعائیں نکلتی رہیں گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رانا اعجاز حسین چوہان کے کالمز
-
جیسی رعایا ویسے حکمران
بدھ 16 فروری 2022
-
ویلنٹائن ڈے… !
منگل 15 فروری 2022
-
یوم یکجہتی کشمیر
ہفتہ 5 فروری 2022
-
صدارتی نظام کی بازگشت!
جمعرات 3 فروری 2022
-
نظام انصاف میں بہتری کی ضرورت
بدھ 2 فروری 2022
-
کرپشن انڈیکس میں اضافہ …!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
ایمان کی دولت انمول نعمت
جمعہ 28 جنوری 2022
-
خوشگوار زندگی کیلئے ذہنی صحت پر توجہ ضروری
جمعرات 20 جنوری 2022
رانا اعجاز حسین چوہان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.