مطالعہ سے بیزار قوم

جمعرات 17 ستمبر 2020

Rana Umar Irfan

رانا عمر عرفان

 بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ آج ہمارے عوام اورحکمرانوں میں کتب بینی اورمطالعہ کا شوق ختم ہوتا جارہا ہے جب کہ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کتابیں پڑھنے کا ذوق رکھتے تھے اوران کے سیاسی حریف گاندھی جی بھی مطالعے کا ذوق رکھتے تھے آج انہی ہستیوں کا نام تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امرہے اوران لیڈروں کی لائبریریاں تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں عظیم مسلم جنرل سلطان صلاح الدین ایوبی علم وادب کے بے حد دل دادہ تھے سلطان کے حکم کے مطابق اس کی فوج کے تمام جنرل تلوار کے دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ علم کے زیور سے بھی آراستہ تھے سلطان کے علم کی پیاس کا یہ عالم تھا کہ میدان جنگ میں بھی گھوڑوں کی پیٹھ پر سلطان کی سفری لائبریری موجود رہتی تھی اگرآپ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دُنیا آپ کو بھول نہ پائے تو کوئی اہمیت والی کتاب لکھیں یا اہمیت کے حامل ایسے کارنامے سرانجام دیں کہ انہیں زیر قلم لایا جا سکے کیوں کہ تحریر ہمیشہ زندہ جاوید رہتی ہے عالم ِتاریخ میں ایک ایسے سکالر بھی گزرے ہیں جو کتابوں کے جمگھٹے تلے دب کر خالق حقیقی سے جا ملے۔

(جاری ہے)

علا مہ جا حظ رحمتہ اللہ کامطالعہ میں محنت و شوق کا یہ عالم تھا کہ کتابوں کی دُکانیں کرائے پر لے کر ساری ساری رات کتابوں کا مطالعہ کرتے کوئی کتاب اُٹھاتے جب تک اول تا آخرختم نہ کر ڈالتے کتاب ہاتھ سے نہ رکھتے کتابیں پڑھنے میں اتنے مصروف رہتے کہ اطراف و اکناف میں کتابوں کا ہی انبار ہوتا ایک دن کتابوں کے جمگھٹے میں بیٹھے کتاب بینی پڑھنے میں اس قدر مشغول تھے کہ آس پاس ر کھی ہوئیں کتابیں ان پر آگریں مفلوج و لاغر اور بیمار جسم میں اُٹھنے کی تاب نہ رہی بس اسی طرح اپنی محبوب کتابوں ہی میں دب کر رہ گئے اور کتابوں تلے دب کر اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ ہندوستان میں علمِ حدیث کی نشرواشاعت کے داعی ومبلغ دہلی میں مسند درسِ حدیث کے عظیم محدث تھے انہماک ِ مطالعہ کا یہ حال تھا کہ رات کی تاریکیوں میں بھی مطالعہ میں رہتے کئی بار ایسا بھی ہوا کہ دورانِ مطالعہ اپنے سامنے جلتے ہوئے چراغ سے آپ کا عمامہ جل گیا لیکن آپ کواس وقت اندازہ ہوا جب آگ عمامہ کوجلاتے جلاتے سر کے بالوں تک پہنچی اور ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے انہماک ِ مطالعے کا یہ حال تھا کہاایک بار آپ مطالعہ میں اس قدر مصروف تھے کہ کمرے میں چور گھس آیا اور ہزاروں روپے چُرا کر دھیرے دھیرے رفو چکر ہوگیا اگرچہ یہ چوری مولانا کی موجودگی میں ہوئی لیکن مطالعہ میں محویت اور انہماک کی وجہ سے پتہ نہ چلا۔حضرت علامہ مولانا محمد شریف کشمیری رحمتہ اللہ فرماتے تھے کہ میں ہر اگلے سبق کا مطالعہ درخت کے بہت اُوپربیٹھ کر کر تاتھا تاکہ گرنے کے خوف سے نیند نہ آئے اس طرح میں اگلے سبق کی عبارت اور مفہوم یاد کرتا تھاپاکستان کی نامور شاعرہ، ادیبہ اور مصنفہ محترمہ حمیرا اطہر اس ضمن میں فرماتی ہیں کہ کتابوں کا مطالعہ کے بغیر آپ کے اندر شعور پیدا نہیں ہو سکتا اور مزید براں یہ کہ اچھا لکھاری بننے کے لیے تین باتوں کا ہونا از حد ضروری ہے مطالعہ ،مکالمہ ،اورمشاہدہ پھر کہیں جا کر آپ کی تحریروں اور تقریروں میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔

راقم نے اُن کی باتوں کو اپنے دماغ کی ہارڈ ڈسک میں سیو کر لیا اور عرصہ دراز سے راقم ہر ماہ ایک کتاب خریدتا ہے اور اپنی علمی پیاس کو بجھاتا ہے اور ”بات سے بات“کو کرید کر مکالمے اور مشاہدے کو اپنے کالم میں پس منظر اور پیش منظر کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے رانا تاب عرفانی میرا دوست ہے جو کہ تین سال کی عمر میں بینائی سے محروم ہوگئے لیکن پھر بھی اس دیوانے نے کسی اور ذرایع کی بجائے علم حاصل کرنے کو ترجیح دی اور تقریباً تین ہزار سے زائد ناول،کتابیں سنی اور دُنیا کے کئی ممالک کا وزٹ بھی کیا۔

تاب عرفانی صاحب نے دسمبر2010 ء کو عالمی دن کے موقع پربے بصر مصنفین دانشور کی کتب کی نمائش منعقد بھی کروائی اس پروگرام میں بے بصرمصنفین کی کتب خرید کر پاکستان کی تمام لائبریریز میں رکھوائی گئیں کتب کے ساتھ ساتھ لائبریریوں کی وقعت کم ہو گئی ہے حالانکہ لائبریریاں مقامی ورثہ کے ساتھ ساتھ ثقافت کے فروغ کا بھی باعث ہوتی ہیں۔بچوں کے لیے خاص طورپر لائبریریاں علم اورتعلیم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں لیکن افسوس صد افسوس آج ہمارے پاکستان میں گنتی کی چند ایک لائبریریاں رہ گئیں ہیں جبکہ پبلک لائبریریاں تو ختم ہو چکی ہیں اس کے برعکس آپ امریکہ کو ہی دیکھ لیں تو وہاں 50,000 سے زائد پبلک لائبریریاں ہیں اور وہاں کوئی بھی شخص فیس دِےئے بغیر مطالعہ کرنے کا حق رکھتا ہے جبکہ پاکستان کے زندہ دلانِ لاہور کی ایک کروڑ کی آبادی کے شہر میں صرف 2 پبلک لائبریریاں ہیں میرے شہر پھول نگر میں ایک احساس پسند دوست امجد حسین کمبوہ نے ایک لائبریری بنا رکھی ہے جس میں دوتین دوست ہی مطالعہ کرتے ہیں بس احساس کی چوکھٹ پہ کھڑا فٹ پاتھوں پر بکھری ہوئیں کتابوں کو دیکھتا ہوں تو میرا ذہن کتابوں کے مصنفوں کی طرف گشت کرنا شروع ہوجاتا ہے صدی کے رجل عظیم نے کتاب کے تقدس بارے کہا تھاکہ جس قوم میں کتابوں کی بے ادبی اور مطالعہ شوق چھن جائے وہ قوم زوال کا شکار ہوجاتی ہے اور آج کتابیں فٹ پاتھوں پر اور جوتے ائیرکنڈیشن کمروں میں شفٹ ہوگئے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہم دن بدن زوال کا شکار ہو رہے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک کے حکمران اورعوام کتب بینی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں رات کوسونے سے پہلے کتب بینی کرکے سوتے ہیں ا چھی کتاب قاری کے مطالعہ میں آکسیجن اورتازگی فراہم کرتی ہے، بہترین کتاب کا مطالعہ قرآن مجید فرقانِ حمید ہے جس کے مطالعہ سے دل میں سُرورونورپیداہوتا ہے اورذہنی شعورکے دریچے کھلنا شروع ہوجاتے ہیں، میں ایک قلم اور کتاب کا طالب اور طالب علم ہوں بس اتنا جانتا ہوں کہ دُنیا میں صرف ایک چیز ایسی ہے جو ہر حال میں انسان کے لیے مناسب ہے اور وہ ہے ”اچھی کتاب“جو بچپن،جوانی،بڑھاپے،خوشی اور غم ہر وقت فیض رساں ہے اور جس شہر سے علم اُٹھ جاتا ہے،جس دیار میں کتاب کھو جاتی ہے جہاں کتب خانے کباڑخانوں تبدیل ہوجاتے ہیں اور کتابیں فٹ پاتھوں کی زینت بن جاتی ہیں اور جوتے ائیرکنڈیشن کمروں میں شفٹ ہوجاتے ہوں تو یقین جانیں وہ دیار اُجڑ جاتا ہے اُجڑے دیار کا کوئی پرسان نہیں ہوتا بس وہ بے حال ہوجاتا ہے بس پھر پیچھے کہانیاں رہ جاتی ہیں آخرمیں ایک فیس بک فرینڈ کی ایک خوبصورت ملاحظہ فرمائیں اس پوسٹ نے مجھے لکھنے پرمجبور کیاکہ یہ قوم دوسوروپے کی کتاب نہیں خریدتی مگر دوہزارروپے کاجوتاخرید لیتی ہے اس سے ظاہرہوتاہے کہ اس قوم کو کتابوں کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :