استقبالِ رمضان اور احتیاط

اتوار 26 اپریل 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

ماہِ رمضان رمضان آن پہنچا۔ اگر چہ مادی نقطہٴ نظر سے اس مہینے اور دوسرے مہینوں میں کوئی خاص امتیاز محسوس نہیں ہوتا لیکن حقیقت میں یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں عملِ قلیل پر بھی جزائے جلیل عطا کی جاتی ہے۔ رمضان المبارک کے لئے پورا سال جنت کو سنورا اور نکھارا جاتا ہے پھر جب یکم رمضان المبارک کا دن آتا ہے تو پھولوں کی خوشبو سے لبریز معطر ہوائیں چلتی ہیں۔

خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں پر ہزاروں بیش قیمت نعمتوں کا لامحدود و لامتناہی سلسلہ ہمہ وقت ابرِ رحمت کی صورت میں رکھتا ہے۔ اگر ہم اس کی عطاوٴں اور بخششوں کے احسانِ عظیم کے حق کو ادا کرنے کا تصور کریں تو تمام عمر نہیں کر پا سکتے۔ خدا کی انہی نعمتوں میں سے رمضان المبارک بھی عظمتوں اوربرکتوں والا متبرک مہینہ ہے۔

(جاری ہے)

ہمیں ماہِ رمضان المبارک کا استقبال خالص اور سچی توبہ کے ذریعے کرنا چاہئے اور اس کے پیغام و مقصد کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تا کہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں اورا س بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہِ مبارکہ میں اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کا ماحصل ہے۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق معمولات کی تجدید کریں پھر ان معمولات کی فہرست بھی بنا لیں جنہیں رمضان المبارک میں ادا کرنا ہے۔ اگر آپ کے ساتھ تقاضے ہیں اور عبادت کے لئے خود کو بالکل فارغ نہیں کر سکتے تو پھر یہ دیکھیں کہ کن کن کاموں کی خاطر چھوڑ سکتے ہیں اور کن کن مصروفیات کو مٴوخر کر سکتے ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں ہم اپنی زندگی، صحت اور جوانی میں فرصت کو غنیمت جانیں اپنے سارے گناہوں سے سچی توبہ کریں۔

معاشرتی روابط اور حقوق پر خاص طور سے دھیان دیں کسی کا کوئی قرض یا دعویٰ ہے تو اسے فوراً چکا دیں اور معاملے کا تصفیہ کر لیں ۔ بروزِ قیامت وہ شخص بڑا بد نصیب اور مفلس ہو گا جو نماز روزے اور زکواة کے ساتھ آئے گا لیکن اس کے اوپر لوگوں کی طرف سے دعووٴں کا ایک انبار ہو گا، کسی کومارا ہو گا، کسی کو گالی دی ہو گی، کسی کی بے عزتی کی ہو گی، لہٰذا اس کی نیکیاں لے لے کر دعویداروں کو دی جائیں گی کہ جب اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی اور دعویدار باقی رہ جائیں گے تو دعویداروں کے گناہ ان کے سروں پر تھونپ دئے جائیں گے۔

اس ماہِ مبارکہ میں اپنے سلوک اور کردار پر دھیان دیں اپنے آپ کو حسنِ سلوک کا پیکر بنائیں۔
اللہ پاک نے ماہِ رمضان کے عنوان سے اپنے بندوں کو ایک ایسا مہینہ عنایت کیا ہے جس میں وہ اپنے بندوں کو روزہ و نماز اور صدقات کے ذریعے اپنے بے حد قریب آنے کا موقع نصیب فرماتا ہے۔ اللہ پاک کے نیک بندے اس مبارک مہینے میں اپنی مسلسل عبادت و اطاعت سے اپنے مہربان کو راضی کر کے رحمت، مغفرت، نجات اور جنت کی بشارت حاصل کرتے ہیں۔

ماہِ رمضان اہلِ ایمان کے لئے بہار کا موسم ہے لیکن اس بار رمضان گزشتہ رمضان کے مہینوں سے بہت مختلف ہے۔ اس بار کا رمضان المبارک عالمِ اسلام کے مسلمانوں کے لئے مزید آزمائشوں بھرا ہو گا۔ ایسا کوئی ماہِ رمضان ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی سنا ہے۔ پوری دنیا اس وقت کورونا جیسے وبائی مرض کا شکار ہے جہاں اس کی وجہ سے سماجی اور معاشرتی پریشانیاں ہیں۔

وہیں مذہبی عبادات و رسومات کی ادائیگی میں بھی مشکلات ہیں۔ متعدی بیماری نے پوری دنیا کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں قید ہو کر رہیں۔ تقریباً دنیا بھر کی عبادت گاہیں بند کر دی گئی ہیں۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ اقصیٰ سمیت دنیا کی تمام مساجد میں عام لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ ایسے میں ہم رمضان کا استقبال اس طرح تو نہیں کر سکیں گے جیسے ہم اس سے پہلے اس کا استقبال کرتے رہے ہیں۔

رمضان کاپہلا ہفتہ تو پوری طرح لاک ڈاوٴن کے سایہ میں گزرے گا، اگلے دنوں میں بھی تقریباً اسی سے ملتی جلتی صورتحال ہو گی۔ علمائے کرام کی رائے ہے کہ سب سے مقدم انسانی آبادی کا وجود اور بقاء ہے۔ انسان زندہ ہے تو اس کی ذاتی زندگی بھی ہے اور دینی بھی۔ ایسے میں انسان باقی رہے، اس کا وجود باقی رہے، یہ انسان کی پہلی کوشش ہونی چاہئے۔ نمازوں کا جو ثواب مسجد میں جانے سے ملتا ہے وہ ثواب اس بار اضطراری حالت کی وجہ سے گھر بیٹھے حاصل ہو جائے گا۔

موجودہ حالات میں سماجی فاصلہ ہی بہترین احتیاطی تدبیر ثابت ہوئی ہے۔ اس لئے اپنے گھروں میں رہ کر نماز و تمام مذہبی رسومات کی ادائیگی کی جانی چاہئے۔ ہم بحیثیتِ مسلمان اس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے منجانب اللہ ہے اور اس کی حکمت کے تحت ہوتا ہے۔ ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے اس کے لئے صرف حکومت نے ہم کو ہدایتیں نہیں دی ہیں بلکہ ہمارے دین نے بھی ہماری رہنمائی کی ہے۔

بلا شبہ بیماری بھی اللہ کی طرف سے ہے اور شفا بھی اسی کی طرف سے ہے، مگر کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے میل ملاپ سے پھیلتی ہیں۔ ایسے امراض کا سب سے بہتر علاج احتیاط، پرہیز اور سماجی فاصلہ ہوتاہے۔ یہاں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ معمولاتِ زندگی کے مفلوج ہو جانے کی وجہ سے اس بار عام طور پر لوگ مالی اعتبار سے تنگی اور پریشانی کا شکار ہیں۔

جن لوگوں کو اللہ پاک نے آسانیاں دے رکھی ہیں ان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کا خاص خیال رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو ایک دوسرے کی مدد کریں۔
ماہِ صیام میں زیادہ لوگ مساجد کا رخ کر کے اپنا وقت ذکر و اذکار میں صرف کرتے ہیں اور نمازِ عشاء میں تراویح کا اہتمام کرتے ہیں مگر کورونا کے متعدی وباء ہونے کے باعث بہت سی احتیاطوں کے ساتھ مساجد میں نمازِ تراویح کی اجازت دی گئی ہے۔

بہتر تو یہی ہے کہ لوگ نمازِ تراویح کا گھروں میں ہی کوئی اہتمام کر لیں۔ عام طور پر نمازِ تراویح گھر پر ادا کرنے کے سلسلے میں کئی قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ گھروں میں نمازِ تراویح ادا کرنا حالات کی بناء پر کسی طرح کم تر ثواب کا سبب نہیں ہے۔ نمازِ تراویح دینِ اسلام میں واجب ہے۔ واجب نماز کو گھر میں ادا کرنے کرنے میں شرعی نقطہٴ نظر سے شک و شبہ کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ پاک نے انسان کو عقلِ دی ہے کہ وہ اپنا نفع و نقصان پہچان سکیں۔ اس وقت عقل مندی اسی میں ہے کہ ہر حال میں لاک ڈاوٴن کی پابندی کی جائے۔ ہم لاک ڈاوٴن پر عمل کرتے ہوئے خلوصِ دل سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔ خود حضور اکرمﷺ کی ہدایت ہے کہ ایسی بیماریوں سے بچنے کے لئے شریعت میں گنجائش موجود ہے۔ اصل مسئلہ سے ناواقفیت کی بناء پر کچھ لوگ جذباتی باتوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یقیناً دوماہ سے جاری لاک ڈاوٴن کی آزمائش میں مبتلا انسانوں کے لئے رمضان اس بار بھی رحمت و برکت کا مہینہ ثابت ہو گا۔ انشاء اللہ ماہِ رمضان کی برکتوں سے اس وباء سے نجات مل جائے گی۔ اپنے گھروں میں محفوظ رہیں اور اگر مسجد میں بھی جائیں تو حکومت کی گائیڈ لائن کی تعمیل کرتے رہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :