کووڈ (19) اور حکومت کا ریلیف پروگرام

جمعہ 22 مئی 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

روز بروز وطنِ عزیز کے مختلف علاقوں سے کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے اور اس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ملک گیر لاک ڈاوٴن کی وجہ سے تمام کام بند ہو جانے کے باعث غریب اور بے سہارہ افراد دوہری مشکلات کا شکار ہیں۔ خاص طور پر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد جو روز کماتے ہیں اور روز کے روز ہی کھا لیتے ہیں جن کے پاس کوئی بچت پس انداز کی ہوئی نہیں ہوتی۔


 اب وہ لاک ڈاوٴن کی وجہ سے گھروں میں مقید ہیں۔ تمام کام بند ہو جانے اور روپیہ پیسہ ختم ہونے کی وجہ سے ان کے گھروں میں راشن کے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ ایسے افراد کے گھروں میں کرونا کے خطرے کے ساتھ فاقہ کشی کا بھی جان لیوا خطرہ بنا ہوا ہے۔ لاک ڈاوٴن نے مزدوروں، غریبوں اور بے سہارہ لوگوں کے ساتھ کاروباری اداروں کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔

(جاری ہے)

اس مشکل کی گھڑی میں ہر کوئی مالیاتی پیکیج کے حوالے سے حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے، حکومت نے بھی دل کھول کر عوام کی اس مشکل وقت میں مدد کی ۔ 1 کروڑ 20 لاکھ افراد کے لئے 12000 روپے فی خاندان فراہم کئے جا رہے ہیں۔
 وزیرِ اعظم عمران خان نے قوم سے عطیات کی اپیل کی ہے جس کے لئے کورونا ریلیف فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ صاحبِ استطاعت لوگ اس میں دل کھول کر صدقات اور زکواةوغیرہ جمع کروائیں۔

وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے مطابق پاکستان میں سالانہ ساڑھے پانچ سو بلین روپے زکواة اور صدقات کی مد میں دئے جاتے ہیں جو ہمارے ملک کے جی ڈی پی کا دو فیصد بنتا ہے۔ فی کس آمدنی کے لحاظ سے یہ شرح دنیا بھر میں بلند ترین ہے۔ وزیرِا عظم پاکستان عمران خان نے کورونا بحران سے معاشی طور پر متاثرہ افراد کو راشن کی فراہمی میں نجی شعبے کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے احسان راشن پورٹل کھول دیا ہے۔

اس میں مستحقین اور فلاحی تنظیموں دونوں کی مطلوبہ معلومات کا اندراج کیا گیا ہے تا کہ حق کا خیال رکھا جا سکے اور ضرورت مند افراد تک امدای رقوم و اشیاء پہنچائی جا سکیں۔ حکومت نے ایک طرف کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے بھاری رقومات خرچ کیں تو دوسری طرف مالیاتی پیکیج دینے کے لئے خزانے کا منہ کھول دیا۔
ایک طرف اگرحکومت نے حالات بگڑنے سے پہلے ہی لاک ڈاوٴن کرنے کا اعلان کر کے درست فیصلہ کیا تھا اور اب بروقت لاک ڈاوٴن میں مناسب نرمی بہترین حکمتِ عملی ہے۔

کورونا کا بحران سمجھ سے بالاتر ہے ہمیں اس بحران سے بچنا بھی ہے اور آگے بھی بڑھنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کا حل لاک ڈاوٴن ہے جب کہ لاک ڈاوٴن کا مقصد صرف وقت لینا تھا تا کہ دنیا اپنے آپ کو اس وباء سے لڑنے کے لئے تیار کر سکے۔ لاک ڈاوٴن کی وجہ سے مناسب وقت میسر آ گیا تھا اب اس میں نرمی کرنا بھی بہت ضروری تھا۔ لوگوں کو بھوکا تو نہیں مارا جا سکتا ہے۔

لوگ گھروں میں رہ کر ایک طرح کی مصروفیات سے تنگ آ جاتے ہیں ظاہر ہے ان کو بھی ماحول میں تبدیلی درکار تھی۔ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ کیسے اپنے درمیان سماجی فاصلہ اختیار کرنا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ لاک ڈاوٴن میں نرمی کے دوران ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے عوام اپنے آپ کو کوروناوائرس سے محفوط رکھیں۔ کورونا کی اب تک کوئی معقول دوا ایجاد نہیں ہوئی اور اس لا علاج مرض نے پورے انسانی معاشرے کی زندگی کو درہم برہم کر دیا ہے۔

لیکن اب انسانی معاشرہ اس وباء کے مضر اثرات کے باوجود اپنی سابقہ زندگی کی بحالی کے لئے فکر مند نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے دوسرے کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی زندگی بحال ہونا شروع ہو گئی ہے۔ کیونکہ تمام تر سائنسی اور طبی تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ کورونا کا وائرس کسی بھی ملک یا خطے میں سے پوری طرح ختم نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اس کے مضر اثرات سے تحفظ کا واحد راستہ احتیاط ہے اور اس کو ہی روز مرہ زندگی کا حصہ بنانا ہو گا۔

ماسک کو لازمی لباس کی حیثیت دینا ہو گی اور رش کی زندگی سے پرہیز کو بھی عادت بنانا ہو گا۔ مغربی ممالک جہاں کورونا نے سب سے زیادہ قہر ڈھایا ہے وہاں اسی طرز پر زندگی پھر سے رواں دواں ہونے لگی ہے۔ ظاہر ہے کہ عالمی سطح پر معاشیات کا ڈھانچہ متزلزل ہو کر رہ گیا ہے اور ترقی پزیر ممالک کی تو بات ہی چھوڑئیے ترقی یافتہ ممالک کی بھی اقتصادی حالت بد تر ہونے لگی ہے۔

اب بے روزگاری کا گراف بڑھنے لگا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا بالکل درست ہے کہ ہمارے ملک میں کورونا نے اتنا ستم نہیں ڈھایا جتنی معاشی بد حالی سے پریشانیاں بڑھیں گی۔ چونکہ یہ حقیقت عیاں ہے کہ کورونا کا جڑ سے صفایا فی الحال ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اب کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کی عادت ڈالنی ہو گی اور احتیاط کے ساتھ حوصلہ بھی رکھنا ہو گا۔

 
لاک ڈاوٴن میں نرمی کے بعد گزشتہ روز تمام شہروں میں تقریباً 50 روز سے بند تمام دوکانیں ا ور چھوٹے کاروبار کھل گئے، بازروں، سڑکوں کی رونقیں بحال ہونے سے سماجی فاصلے کا اصول درہم برہم ہو گیا۔ دوکاندار دکانیں کھلنے پر خوش دکھائی دئے۔ ماسک، سماجی فاصلہ اور سینی ٹائزیشن سب ایس او پیز ہوا میں اڑ گئے۔ لاک ڈاوٴن کھلنے سے حکومت نے جن ایس او پیز پر عمل کرنے کی عوام سے امید لگائی تھی لگتا ہے عوام اسے پہلے دن ہی فراموش کر بیٹھے۔

کاروبار کھل گئے، یہ معاشی ضرورت ہے، حکومت کا صائب فیصلہ ہے۔ یہ ہے بھی درست اگر کرونا وائرس سے جنگ جیتنی ہے تو انہیں ذہنی اور اعصابی طور پر نڈھال کر کے نہیں بلکہ ہمت، حوصلے اور عزم سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کا اول دن سے یہ مٴوقف رہا ہے کہ لاک ڈاوٴن کے باعث روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور طبقے کے غریب لوگ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں لہٰذا اس کو بتدریج ختم کرنا ضروری ہے اورا پنے اس موٴقف کی بنیاد پر جس میں موجود وزن کو عوام کی کسمپرسی کے تناظر میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے وزیرِ اعظم نے کاروبارِ زندگی کو بتدریج معمول پر لانے کے لئے لاک ڈاوٴن کو مرحلہ وار کھولنے کا آغاز کر دیا۔

واضح رہے کہ دنیا کے دیگر متاثرہ ممالک میں بھی مرحلہ وار لاک ڈاوٴن میں نرمی کی جا رہی ہے۔ اگر لوگوں نے حکومتی ہدایات پر عمل نہ کیا اور وائرس پھیلا تو دوبارہ سے لاک ڈاوٴن لگایا جا سکتا ہے۔لوگوں کو سوچنا ہو گا کہ اب وہ ویسے زندگی نہیں گزار سکتے جیسے وہ کورونا وائرس پھیلنے سے پھیلے گزارتے تھے۔ انہیں اپنے طرزِ عمل اور لائف اسٹائل میں تبدیلی لانا ہو گی۔ یقیناً انہیں اپنے لئے کچھ احتیاطیں طے کرنا پڑیں گی جس پر عمل کر کے انہیں اپنے معاملات کو آگے بڑھانا ہو گا۔ آج کی صورتحال ہمیں سکھاتی ہے کہ اس سے لڑنے کا ایک ہی راستہ ہے خود کفیل پاکستان۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :