تحریک انصاف کی حکمرانی آٹھ ماہ سے زائد کی مسافت طے کر چکی ہے اب اگر آٹھ ماہ کی حکومتی کارکردگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو عوام کے ہوشربا مہنگائی کے باعث اداس چہرے’معاشی عدم استحکام‘ڈالر کی اڑان‘پیسے کی قدر میں کمی‘ صنعت کاری میں کمی‘مالیاتی خسارے میں اضافہ‘شرح سود میں اضافہ جیسے بحران اس کی مایوس کن کارکردگی کا طبل بجا رہے ہیں۔
سٹیٹ بنک کے جاری اعلامیہ میں اعداد و شمار بھی حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں یہ وہ تشویشناک صورتحال ہے جو ملک کی عوام کو مزید مسائل کی گرداب میں دھکیل رہی ہے جس کے باعث غربت و بے روزگاری میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
معاشی آسودگی کی راہیں تکتے تکتے عوام اعصاب شکن مسائل کے باعث نڈھال ہو چکی ہے مسائل کا حل قظعا وعدے ‘وعیدوں اور اعلانات میں پوشیدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے عملی ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
اب ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان نے غربت مکاؤ پروگرام”احساس‘کا آغاز کرتے ہوئے افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ غربت کے خاتمے کے لئے 80ارب روپے کا اضافہ کیا جا رہا اور اس کے لئے نئی وزارت قائم کی جارہی ہے جو ملک بھر میں اس پروگرام کے لئے کام کرے گی۔اس وقت سرکاری اعداد وشمار پر اگر اعتماد کیا جائے تو ملک میں غربت کی شرح 17فیصد ہے جبکہ معاشی ماہرین کے مطابق ورلڈ بنک کے معیار دو ڈالر فی دن کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو پاکستان کی تقریبا ساٹھ سے ستر فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک جو بھی حکمران مسند اقتدار پر براجمان ہوئے انہوں نے غربت کے سلسلے میں سرکاری اعداد و شمار ایسی ہیرا پھیری سے عوام کے سامنے رکھے جن سے یہ گمان ہونے لگتا تھا کہ جیسے اب ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔کیا صرف اعداد و شمار پیش کرنے سے ملک سے غربت میں کمی واقع ہوئی اس سوال کا جواب نفی میں اس لئے ملے گا کیونکہ آج بھی دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
ملک میں غربت ایک ایسا مہلک مسئلہ ہے جس کے بطن سے مزید مسائل جنم لے رہے ہیں پاکستان جیسے ملک میں یہ اندازہ قائم کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ ملک میں غربت کی شرح کیا ہے پاکستان میں غربت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ معروف شاہراؤں‘چوکوں اور پبلک مقامات پر نظر دوڑا لیں گدا گر اور مزدور پیشہ افراد کثیر تعداد میں نظر آئیں گے جن کے ہاتھ اور نظریں چند روپوں کی منتظر دکھائی دیتی ہیں۔
آبادی میں ہوشربا اضافہ‘وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم‘ناخواندگی‘ہنر کا فقدان‘روزگار کے مواقع کا نہ ہونا یہ وہ عوامل ہیں جو غربت میں تواتر کے ساتھ اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔پوری دنیا میں شرح پیدائش تقریبا 5.2ترقی یافتہ ممالک میں 5.1جبکہ پاکستان میں 7.4ہے دیکھنا یہ ہے کہ آبادی کی شرح میں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور اس بات کا جائزہ لینے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ذولفقار علی بھٹو کے بعد آنیوالی حکومتوں نے اس ضمن میں کیا اقدامات اٹھائے تو معلوم ہوگا کہ نتیجہ صفر اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک غربت کے خاتمے اور اس میں کمی لانے کے لئے سب سے پہلے آبادی کے پھیلاؤ کی شرح کو کم کرنے کے لئے اقدامات اٹھاتے ہیں تاکہ غربت پر قابو پانے میں آسانی پیدا ہو سکے۔
غربت کے خاتمے کے لئے ہمیں پہلے ان اسباب کا تدارک کرنا ہوگا جو اس کے خاتمے کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے ہیں۔کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے اس کے پس پردہ محرکات کو جاننا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر کسی بھی مسئلہ کا پائیدار حل ممکن نہیں اگر پاکستان میں غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت سے ایسے اسباب ہیں جو اس کو ختم کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔
غربت کے خاتمے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کا پروگرام ضرور انقلابی ہو سکتا ہے لیکن اگر پیشہ وارانہ اہلیت اور قابلیت کے حامل افراد نے مختلف شعبہ جات میں ٹھوس پالیسیاں ترتیب دے کر عملدرآمد کو یقینی نہ بنایا تو پاکستان غربت خاتمے کے لئے مہیب خطرات پر قابو نہیں پا سکے گا۔ پاکستان کی نصف سے زائد دولت پر ملک کی ایک فیصد آبادی قابض ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کی عوام پر اپنی طرز حکمرانی جیسا ماڈل مسلط کیا اور پھر اپنے اقتدار کو طوالت دیتے ہوئے ملک و ملت سے ہٹ کر صرف اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔
آبادی میں اضافہ‘گرانی‘بیروزگاری‘ناخواندگی‘عدم مساوات‘انتہا پسندی‘عدم تحفظ‘نقل مکانی‘عدم سرمایہ کاری‘بد انتظامی یہ ایسے مسائل ہیں جو غربت کے اسباب سے جڑے ہوئے ہیں غربت سے نمٹنے کا چیلنج اس تبدیلی حکومت کے لئے بہت بڑا اور صبر آزما ہے غربت کے خاتمہ کے اہداف کو ناکافی اقدامات اٹھا کر حاصل نہیں کیا جا سکتا اس کے لئے ایک جامع پالیسی اور ڈیزائن درکار ہے جو اس ملک کو ترقی یافتہ بناتے ہوئے جدید دنیا کی صف میں لاکھڑا کرے ۔
دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کو دیکھ لیں اشتراکی نظام(سوشلزم)یا اشتمالی نظام (کیمونزم)کے ذریعے معاشروں میں ایک ایسا نظام وضع کیا جس کی بدولت وہاں کی عوام کے چہرے دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے باعث خوشحال ہیں لیکن پاکستان کے معاشرے میں اس کے بلکل بر عکس ہے یہی وجہ ہے کہ غربت نے معاشرے کو عدم تحفظ سے دوچار کر دیا ہے۔
غربت کے خاتمے کے لئے ادارہ جاتی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اقوام متحدہ کا چارٹر آئین پاکستان کا آرٹیکل 38عام فرد کو یہ ضمانت فراہم کرتا ہے کہ روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات بہم پہنچانا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔
المیہ یہ رہا ہے کہ ہر حکمران نے یہ بنیادی سہولیات اپنے لئے تو جائز قرار دی لیکن یہ سہولیات ایک عام آدمی کی دہلیز پار نہ کر سکی یہ بھی بہت بڑا تضاد ہے جو ملک میں غربت میں اضافہ کا سبب ہے جب تک عام آدمی کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کر کے انہیں قومی دھارے میں شامل نہیں کیا جاتا یہ ملک ترقی و خوشحالی کے زینے پر قدم نہیں رکھ سکتاروٹی‘کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ صحت و تعلیم جیسی سہولیات کی دستیابی ہی اس ملک سے غربت کے خاتمے کی ضامن بن سکتی ہیں دنیا کے مہذب معاشروں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے تعلیم و صحت کی سہولیات کے حصول کے بعد ترقی کی منازل طے کیں موجودہ حکومت اگر غربت کے تدارک کے لئے پر عزم ہے تو پھر ایسی پالیسیاں بنانے کی اشد ضرورت ہے جس سے عام آدمی کو بنیادی سہولیات فراہم ہو سکیں وگرنہ ماضی کے غربت مکاؤ منصوبوں کا انجام بھی حکومت کے سامنے ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔