معاشی بحران کی خطرناک دستک!

پیر 4 مئی 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

عالمگیر کرونا وبا نے انسان کی قوت مدافعت اس حد تک کمزور کر دی کہ پوری دنیا کی نظریں ان تجرباتی لیبارٹیز پر ٹکی ہیں جہاں اس وبا کے علاج کے لئے دنیا کے طبی ماہرین ویکسین اور دوا کی تیاری میں مصروف ہیں گذشتہ دنوں امریکہ میں انسانوں پر ایک نئی ویکسین کا تجربہ کیا گیا لیکن مبصرین کے مطابق اس کے نتائج آنے میں ابھی وقت درکار ہے۔

جوں جوں دن رات کروٹیں بدل رہے ہیں انسان کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس وبا نے پوری دنیا کے نظام کو تقریبا تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے ۔دنیا کی معشیتیں تنزلی کی جانب گامزن ہیں کرونا کے بعد دنیا کی معاشرت‘سیاست اور معشیت کیسی ہو گی اس بارے رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے لیکن یہ طے ہے کہ ترقی پذیر ممالک اس کساد بازاری سے اس حد تک متاثر ہوں گے کہ ان ممالک کو اپنی کمزور معشیت کے ساتھ ساتھ غربت و بیروزگاری جیسے سخت گیر چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے ہوئے طویل جنگ لڑنا پڑے گی۔

(جاری ہے)

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 1930ء کی دہائی کی گریٹ ڈیپریشن کہلانے والی کساد بازاری سے اب تک کااسے سب سے بڑا اقتصادی بحران قرار دیا ہے۔پاکستان میں لاک ڈاؤن کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن دنیا بھر سمیت اس وباء سے نجات کی کوئی انسانیت کو راحت کے پل نصیب ہونے والی حوصلہ افزا خبر موصول نہیں ہو رہی جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ انسان اپنی نئی زندگی کی شروعات کیسے کرے گا۔

اس وقت ملک میں معاشی صورتحال اس حد تک گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے کہ کرونا کی وجہ سے فیکٹریوں کی بندش کے باعث جہاں برآمدی آرڈرز کی تکمیل ممکن نہیں وہیں ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی آمد کو بھی بریک لگ چکی ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ لارجر سکیل مینو فیکچرنگ کمپنیوں میں سے ساٹھ فیصد سے زائد کمپنیاں اس وقت مکمل بند ہیں ان حالات کی وجہ سے حکومتی ادارے بھی لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے فکر مند اشارے دے رہے ہیں۔

پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کرونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔پاکستان میں اس وبا کے بعد جو خوفناک معاشی منظر نامہ ابھرتا ہوا نظر آرہا ہے اس کے لئے نہ حکومت تیار ہے اور نہ ہی عام آدمی میں اتنی سکت ہے کہ وہ اس بحران کا سامنا کر سکے اگر لاک ڈاؤن کو مزید دو ماہ تک بڑھایا گیا تو یہ لاک ڈاؤن ایک کروڑ افراد کی ملازمتوں کو خطرات سے دوچار کر سکتا ہے اگر کرونا وائرس کی وجہ سے حالات مزید خرابی کی جانب گامزن رہے اور حکومت اپنی حکمت عملی پر اسی طرح قائم رہی تو ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس سے پچاس لاکھ افراد کا روزگار داؤ پر لگ جائے گا۔

پاکستان پہلے ہی مغرب کے مسلط کردہ عالمی مالیاتی سفید ہاتھی جیسے اداروں کے نرغے میں ہے ان حالات میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی بھی ایک سنگین مسئلہ بن جائیگا ایسے وقت میں جب ملک طبی بحران اور اقتصادی اثرات سے نمٹنے کے لئے انتہائی دباؤ کا شکار ہے۔جی 20ممالک نے جن 77ممالک سے متوقع قرضوں کی ادائیگی کو منسوخ کرنے کی بجائے مئوخر کرنے پر اتفاق کیا ہے وہ اب مئی کی بجائے سال کے آخر میں ادا کئے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ان ادائیگیوں کو بحران سے نمٹنے کے لئے تو چند ماہ استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ادائیگی کی رقم ضرور ادا کرنے پڑے گی عالمی مالیاتی اداروں کو اس عالمی بحران کے پیش نظر ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے مزید مدت میں توسیع کرنا چاہیے تا کہ وہ ممالک اس بحران سے نکل کر اس قابل ہو جائیں کہ ادائیگیوں میں آسانی ہو کیونکہ دنیا کی طاقتور معشیتوں کو بھی اس وبا سے نجات کے بعد اپنی اپنی معشیت کو قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے کم از کم پانچ سال کا عرصہ درکار ہو گا۔

اس وقت پوری دنیا کرونا وبا کے مضر اثرات کے بری طرح لپیٹ میں ہے اس سے انسان کو کب خلاصی نصیب ہو گی یہ وقت طے کرے گااس وبا نے نہ صرف پورے معاشرے کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے بلکہ انسانی معاشرے کے سامنے کئی مسائل کھڑے کر دئیے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس بات پر فکر مند ہیں کہ کرونا کے بعد اقتصادی حالات پر گرفت کرنے میں انہیں برسوں لگیں گے ۔

ملک میں اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام اقتصادی نقل و حمل بری طرح متاثر ہو چکی ہے ابھی حکومت مکمل لاک ڈاؤں کے حق میں نہیں ہے اور اب تو لاک ڈاؤں کھولنے کے بھی حکومتی اشارے مل رہے ہیں یہ کرونا وبا ہے یا عالمی سازش لیکن ترقی پذیر ممالک کو اس کرونا نے صفر پر لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان میں غریب اور متوسط طبقہ غربت و بیروزگاری کے ہاتھوں فاقہ کشی پر مجبور ہو چکا ہے اب تو اس وبا کی طوالت نے عام آدمی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

ملک میں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی چھوٹے دوکاندار اپنا مال کا سٹاک بیچ کر سال بھر کا خسارہ منافع میں تبدیل کر لیتے تھے لیکن اب تو بازار بند کاروبار بند ان حالات میں جو نقصان ہوگا اس کا خسارہ پورا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر حالات اسی نہج پر تھوڑا عرصہ اور رہے تو متوسط اور نچلے طبقے کے لئے روزگار ناپید ہو جائیگا معاشی نمو کی شرح پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجاچکی ہے لوگوں کے کاروبار اور ملازمتیں داؤ پر لگتی جا رہی ہیں مستقبل کے دروازے بڑی خطرناک دستک دے رہے ہیں جس کے لئے حکومت کو ابھی سے تیاری کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ھکومت کو ماہر معاشیات کی تجاویز پر عمل کرتے ہوئے ایسی پالیسی ترتیب دینی چاہیے جس سے عام آدمی کا روزگار متاثر نہ ہو کیونکہ لاک ڈاؤن کو اب زیادہ دیر نہیں رکھا جا سکتا ملک مین پہلے ہی وسائل کی کمی ہے اور زیادہ دیر حکومت بھی لوگوں کو گھروں میں کھانا پہنچانے کی سکت نہیں رکھتی اس لئے ضروری ہے کہ معاشی سرگرمیوں کی احتیاطی تدابیر کے نفاذ کے ساتھ مشروط اجازت دینی چاہیے تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں شروع ہو سکیں اس سے معاشی بحران سے نمٹنے میں معاونت ملے گی۔

بلا شبہ یہ وبا بڑی خطرناک ہے اس سے ہم ا حتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے ہی بچ سکتے ہیں اور اس وبا سے نمٹنے کے لئے کے لئے خطیر رقم درکار ہے اور حکومت کو چاہیے کہ ملک کی تما م قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کرتے ہوئے اس بحران سے نکلنے کی عملی سعی کرے سیاست کے ضابطے اس وبا سے نجات کے بعد طے کرلیں لیکن اس وقت صرف سیاسی قائدین ہی اپنے مثبت رول کے تحت سر جوڑ کر اس عوام کو ایک قوم میں ڈھال کر اس وبا اور بحران سے بچا سکتے ہیں کیونکہ مستقبل میں ایک بڑے معاشی بحران کے نقصان کی آہٹ صاف سنائی دے رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :