معاشی برتری کیلئے حیاتیاتی جنگ کا آغاز!

بدھ 12 مئی 2021

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ زمانہ قدیم میں جو جنگیں ہوا کرتی تھی اس میں صڑف تیر اور تلوار کے استعمال کے علاؤہ دوسرے جنگی حربے استعمال کئے جاتے تھے ان حربوں کی کافی تفصیل ہے لیکن یہاں اختصار کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں تا کہ قارئین کو آگاہی ہو سکے۔600قبل مسیح میں ایتھنس(Athens)کے ایک شہر کے گھیراؤ کے دوران حملہ آور فوج نے عوامی استعمال کے پانی کے ذخیروں کو زہر آلود کر دیا تھا‘1000قبل مسیح میں چین اپنے دشمن کے خلاف سانپوں کا بطور اسلحہ استعمال کرتے تھے۔

1100ء سے قبل دنیا میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں پلیگاور اسمال پاکس سے ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو دشمن ملک کے در و دیوار پر ڈال دیا جاتا تھاتاکہ دشمن بھی اس وبا سے متاثر ہو کر ہلاک ہو جائیں‘1400ء میں لیونارڈڈاوائن نے زہریلے پانی کے جہاز پر حملہ کر کے ہہتھیار دریافت کئے‘1945ء میں اسپین والوں نے اپنے دشمنوں کو جذام سے متاثرہ افراد کا خون ملی ہوئی شراب پلائی‘1950ء میں ایک پالش جنرل نے Sphereفائر کئے جن میں خرگوش اور کتے کا تھوک دشمنوں پر پھینکا گیا ‘1973ء میں برطانوی آفیسرز نے ایک منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے مقامی امریکیوں کو اسمال پاکس سے متاثرہ بلانکٹس تقسیم کئے یہ واقعہ فورٹ بٹ پنسلوانیہ میں ہوا۔

(جاری ہے)

جب ظلم و بربریت آخری حدوں کو چھونے لگے نا انصافی‘جھوٹ اور فریب معاشروں کا چلن بن جائے اور نظام عدل دوہرے معیار کے ترازو میں تلنے لگ جائے تو پھر معاشرہ درندگی‘وحشت اور دہشت کی علامت بن جاتا ہے تو ایسے میں نظام قدرت اپنے قوانین نافذ کرتا ہے کہیں مچھر سے کام لیا جاتا ہے تو کہیں ان دیکھے وبائی وائرس کو حاوی کرکے جنگ مسلط کر دی جاتی ہے۔

اس وقت کورونا وائرس کی زد میں سارا عالم تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے سب بے بس و لاچار ہیں التجائیں ہیں کہ اس وائرس کے قہر سے بچاؤ کے لئے احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں اس دہشت و وحشت کی گھمبیر صورتحال میں عام آدمی کے ذہن پر یہ سوال بھی شکوک و شبہات کے ساتھ دستک دے رہا ہے کہ یہ سارا کھیل معاشی برتری کے حصول کا حصہ تو نہیں یا پھر کوئی حیاتیاتی جنگ کا پیش خیمہ ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں میں سرد جنگ کا سلسلہ چلا اور اختتام روس کی عالمی طاقت کے انتشار کی صورت میں سامنے آیااب پوری دنیا میں سرد جنگ کے دوسرے دور کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کا انجام کس عالمی طاقت کے انتشار کی صورت سامنے آئے گا یہ کہنا قبل از وقت ہے۔پوری دنیا میں اس وقت زمینی طاقتیں اپنے دوست ممالک کو یکجا کرتے ہوئے نئی صف بندیوں میں مشغول ہیں اور یہ کشمکش عالمی منظر نامہ میں بگاڑ کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے اس گروپ بندی میں ہر ملک اپنے مفادات کو مقدم رکھے گا ۔

بہر حال یہ صورتحال ایک معاشی برتری کی جنگ کی جانب بھی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے اور اس جنگ میں جیت کا ہما کس کے سر بیٹھے گا یہ رائے قائم کرنا صرف دشوار ہی نہیں ناممکن دکھائی دے رہا ہے لیکن اس بات کا اندازہ ضرور قائم کیا جا سکتا ہے کہ اس وبائی وائرس کے ہاتھوں بے شمار انسانی ہلاکتوں کے بعد عالمی طاقتیں مل بیٹھ کر اپنے اپنے معاشی مفادات کو ضرور سمیٹ لیں گی اور خسارے میں صرف حضرت انسان ہی رہے گا۔

محمد انیس الدین سابق این آر آئی اور بھارت کے سینئر بینکر ہیں وہ اپنے کالم ”معاشی برتری اور حیاتیاتی دہشت کی جنگ“ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں رقم طراز ہیں کہ کورونا وبا کا آغاز چین کے شہر ووہان سے ہوا اور چین کی لیبارٹری نشانے پر رہی لیکن چین اس تعلق سے مسلسل انکار کرتا رہا ایک انگریزی اخبار کے مطابق چینی فوج کے کئی خفیہ پروجیکٹ میں ووہان لیبارٹری نے مدد کی اور اس کے ساتھ ہی کئی جانوروں کے خطرناک وائرس کی بھی تحقیق کی گئی اور اس بات کا بھی علم ہوا کہ کہ گزشتہ نو سالوں سے سائنس دان وائرس کی کھوج اور بیماری پھیلانے میں شامل حیاتیات کی سائنس بھی ڈارک میٹر پر کر رہے تھے۔

اس تحقیق میں چینی فوجی آفیسرز کے شامل ہونے کی اطلاعات بھی ہیں غور طلب امر یہ ہے کہ گزشتہ سال جنوری میں ایک چینی سائنس دان نے ایک روزنامہ (Journal)شائع کیا جس میں یہ بتایا گیا کہ تین سال میں چین میں 143نئی بیماریاں دریافت کی گئی ۔چین کے ووہان لیبارٹری کے سائنس دانوں نے جانوروں کیے وائرس کی دریافت کے لئے چینی فوج کی مدد کی تھی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ اس میں پانچ لیڈر بھی شامل تھے امریکہ کے وینڈن انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کا الزام ہے کہ اس طرح کے وائرس پھیلانے میں چین کے شہری اور فوجی دونوں شامل ہیں۔

چین پر پہلے ہی الزام تھا کہ ووہان لیبارٹری سے کورونا وائرس پھیلا ہے لیکن چین اس کو ماننے کو ہر گز تیار نہیں ہے یہاں تک کہ عالمی ادارہ صحت (WHO)نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ ووہان لیب سے کورونا نہیں پھیلا بلکہ یہ کسی جانور سے انسان تک پہنچا ہے ۔ملک چین سے کورنائی وبا کا آغاز ہوا اور اس ملک نے اس وبا پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا لیکن سارے عالم سے اس وبا کے ختم ہونے کے آثار موہوم ہیں اس کی آخر وجہ کیا ہے ؟کیا یہ ممالک اس وبا کو قابو کرنے کے قابل نہیں اور یہ صلاحیت صرف چین کے پاس ہی ہے تو پھر انسانیت کی بقاء کے لئے کوئی متحدہ اور متفقہ فیصلہ کیوں نہیں کیا جاسکتا۔

پوری دنیا اس وقت اس وائرس کی ویکسین بنا کر اپنی معاشی برتری کے لئے مگن دکھائی دیتی ہیایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی کو بھی انسانیت سے ہمدردی نہیں ہے اگر ہمدردی ہوتی تو کوئی ٹھوس اور مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جاتا۔حضرت انسان اپنی بربادی کے تمام ایٹمی ہتھیاروں سے فارغ ہو چکے تھے اور کسی ٹکراؤ کی صورت میں طرفین کی برباددی لازم تھی تو اس صورتحٓال میں انسان اپنی قدیم جنگوں میں استعمال ہونے والے حیاتیاتی جنگی حربوں کو موجودہ نئے دور سے ہم آہنگ کرتے ہوئے سارے عالم میں اپنی برتری کا لوہا منوانے کے لئے دوبارہ حیاتیاتی جنگ کی جانب راغب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

حیاتیاتی اور کیمیائی جنگ دنیا کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔کورونا وبا کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ عالمی طاقتیں ایک حیاتیاتی دہشت کی جانب سفر کر رہی ہیں اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھرا کر آپس میں دھمکیاں دے رہی ہیں ۔آج سارے عالم میں کورونا وائرس انسانی حیات کے تعاقب میں ہے بے شمار انسانی جانوں کو یہ مہلک وائرس نگل چکا ہے اور جو باقی بچ گئے ہیں وہ اپنی زندگی بچانے کے لئے آکسیجن کی تلاش میں در بدر ہیں دوا خانوں کی چوکھٹوں پر انسانیت سسک رہی ہے ۔کورونا کے مہلک وائرس کا نام امریکہ نے رکھا اور اس وائرس کی پیدائش چین میں ہوئی اس کورونا وبا سے انسان کی خلاصی کب ہو گی یہ کہنا اور قیاس کرنا قبل از وقت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :