طلباء یکجہتی، انقلاب کی للکار

پیر 2 دسمبر 2019

 Rashid Baghi

راشد باغی

چار دہائیوں بعد 29 نومبر کو طلباء یکجہتی مارچ اس گھٹن ذدہ سماج کو چیرتے آگہی, روشنی کی کرنوں کے ساتھ پاکستان جیسے پچھڑے سماج میں سوشلسٹ انقلاب کا نقطہ آغاز ہے چار دہائیوں سے جن مقتدر قوتوں نے سمجھ لیا تھا اب طلباء اور اس طرح کی تحریک کی یکجہتی ممکن نہیں رہی اور جو لبرل دانشور میڈیائی دادا گیر بنے یہ سمجھتے تھے ہم ہی وہ کاتب ہیں جن کے قلم اور منہ سے نکلی بات حرف آخر ہے ہماری موقعہ پرستانہ باتوں پر عمل پیرا نوجوان ہمیشہ چپ کی سادھ لیں گے اپنی انفرادی لڑائی میں لگے سماج سے ہی بیگانہ ہو جائیں گے اور ہمارے آقاؤوں کے ساتھ ہماری عیاشیاں بھی ہمیشہ برقرار رہیں گی۔


 یہ طلباء یکجہتی ان ماضی کے مزاروں اور مایوس بتوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے سماجی رشتوں کی سادہ حقیقت یہی ہے مسائل کو بے معنی تکرار میں الجھاتے دبایا تو جا سکتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے نہیں آج طلباء یکجہتی اور یہ اظہار مخض کوئی حادثہ یا واقعہ نہیں بلکہ دہائیوں کی اُس اذیت اور جبر کا اظہار ہے جو ضیائی آمریت نے اِن طلباء پر یونین سازی کی پابندی لگا کربنیاد رکھی تھی اور اس جبر اور اذیت کو ضیاء کے بعد آنے والی نام نہاد جمہوری حکومتوں جو کہ ضیاء ہی کی باقیات ہیں نے جاری رکھا. اس طلباء مارچ سے جہاں زر خرید ملاؤوں کو تکلیف کے مروڑے پڑ رہے ہیں وہاں لبرل اشرفیہ اور اور ان کے مفت خور پیروی کرنے والے جو پیروی محض اس لیے کہیں کوئی شارٹ کٹ راستہ مل جائے اور ان کی جیسی شاہانہ زندگی گزاری جائے یہ وہی لبرل جو ہر ٹرک کی بتی کے پیچھے اپنے وقتی مفادات کی خاطر اپنے مجذوب دماغ کی ورزش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یہ وہی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے جنہیں کبھی عمران خان کبھی مریم اور جب کوئی نہ ہو تو مولانا فضل الرحمن جیسے شعبدہ باز کردار بھی سیول سپر میسی اور جمہوریت کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں.
دہائیوں کی خود ساختہ اور ریاستی چپ لگوائی کا اظہار ایسے ہی انقلابی نعروں سے ہونا تھا جیسے جب لال لال لہرائے گا تب ہوش ٹھکانے آئے گا لاٹھی گولی کھا کر بھوکے رہے کر زندہ ہیں طلباء زندہ ہیں جیسے نعروں کا ہی پیش خیمہ تھا لیکن یہ نعرے یہ طلباء کی یکجہتی کوئی آخری یا پہلے انقلابی نعرے اور یکجہتی نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

یہ درست ہے طلباء کی اس یکجہتی نے یقیناً حکمرانوں کی نیندوں کو حرام کیا اور دہائیوں بعد فیض احمد فیض کے میلے میں سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے نوجوانوں کی نعروں والی ویڈیو کا وائرل ہونا اور طلباء سیاست کا بظاہر نظر آنے والا اچانک مین سٹریم میڈیا پر آنا اِس سرمایہ دانہ میڈیا کے خیر خواہانہ انداز کے پیچھے بھی طلباء کی طاقت کا ادارک اور پھر سرمایہ دارنہ نظام کے اپنے ہی مقاصد چھپے ہوتے ہیں۔

 یہ طلباء یکجہتی کی جیت ہے کہ انھیں میں سٹریم میڈیا پر پذیرائی ملی ہے لیکن یہاں یہ بھولنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے یہ وہی ریاست ہے جہاں میڈیا سنسرشیپ کا شکار ہے جہاں کچھ ہی ماہ پہلے کی تحریک پی ٹی ایم جس تحریک میں بھی اپنے حقوق کا مطالبہ تھا اُس کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا اور پی ٹی ایم کی قیادت بھی اپنے مسائل کو دوسرے صوبوں کی عوام کے مسائل کے ساتھ جوڑنے میں ناکام رہی لیکن ان کا پنجاب اور سندھ میں جلسے کرنا بھی مستقبل میں جڑٹ کی نوید ضرور ہے یہ عیار حکمران ہمیشہ ہی پنجاب میں بیٹھے باقی صوبوں کی عوام کا استحصال باقی صوبوں کے وڈیروں اور سرمایہ داروں کے زیر نگرانی کرتے رہے ہیں طلباء یکجہتی کی کامیابی کا عنصر طلباء یکجہتی کی کال پنجاب سے ہوئی جس صوبے میں باقی صوبوں کے اشرفیہ کی اولادیں بھی مہنگی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہیں یہ حکمرانوں کی بنائی گی ترتیب ہوتی ہے وہ جبر اور داہشتگردی جیسی واردت پوری ریاست میں عام دنوں میں ایک ہی وقت میں نہیں کرتے کیونکہ انھیں خوف ہوتا ہے مزاحمت کا سامنا ایک ہی وقت نہ ہو اور کہیں طبقاتی جڑت نہ ہو ۔

لیکن آج داہشتگردی اور مسنگ پرسن جیسے مسائل تو پنجاب میں نہیں لیکن بھوک, ننگ اور دیگر سماجی حالات مشترک ابھر رہے ہیں اس طلباء یکجہتی مارچ کی کامیابی کی وجہ یہ بھی ہے کیونکہ طلباء یکجہتی کے رول ماڈل چی گیورایہ, بھگت سنگھ, مقبول بٹ, نذیر باغی اور مشعال جیسے نوجوان تھا جس کا بیمانہ قتل کیا گیا جو اس یکجہتی کے نشان کسی رنگ نسل ذات برادری سے بالاتر ہیں اور اس طلباء یکجہتی کو پورے پاکستان میں نوجوانوں اور محنت کشوں میں پذیرائی ملی وہاں اِس ریاست کے رکھوالوں نے بھی اِس یکجہتی کو سنجیدہ لیا اور مین سٹریم میڈیا پر بھی جگہ دی ہے یہاں کے ریاستی رکھوالے اور حکمران ہمیشہ سے ہی سامراجی ایجنٹوں کے طور پر کام کرتے رہے ہیں اور یہ نعرے یہ سرخ رنگ مزدورں اور نوجوانوں کی عالمی طور پر مثراث ہے یہ نعرے بھلے پاکستان جیسی سرمایہ دار پچھڑی ہوئی ریاستوں میں للکار بنے ہیں لیکن ان نعروں سے امریکہ جیسی جابر ریاستوں کے حکمرانوں پر بھی لرزا تاری ہوتا ہے۔

 یہ نعرے اجارہ داریوں کے لیے خوف کے باعث ہیں اور ان سامراجی ایجنٹوں سے کسی اچھائی کی توقع رکھنا اور طلباء مسائل کا حل ان کے ان بوسیدہ ریاستی ڈھانچوں میں ممکن ہی نہیں یہ میڈیا پر ان انقلابی نعروں کا جگہ دے کر اپنے طبقے کے لوگوں کو خبر دار کر رہے ہیں اور آنے والے وقتوں میں یہ اس آگہی کو روکنے کے لیے ڈالروں کی بھیک سے لے کر اسلحہ تک مانگیں گے ماضی میں ہم نے دیکھا ہے پڑوسی ملک بھارت کے طلباء میں بھی ایسے نعروں کی پذیرائی ہوئی اور اُس قیادت کو بھی اپنی نظریاتی زوال پذیری کے باعث عالمی خیراتی اداروں کی بھنیٹ چڑھایا جا رہا ہے لیکن ان خیراتی اداروں کی ایماء پر چھوٹی تحریکوں اور چند ایک کو تو نوازا جا سکتا ہے لیکن مسائل کے انبار کا حل نا قابل مصالحت جدوجہد سے ہی ممکن ہے طلباء کل بھی زندہ تھے اور طلباء آج بھی زندہ ہیں ماضی کے پاکستان کے طلباء کی جدوجہد خصوصاً 1968,69 کی جدوجہد تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ایوبی آمریت کا تختہ دھڑن کرنے والے یہی طلباء تھے لیکن نظریاتی کمزریوں کے باعث ضیاء جیسے آمر کو اِس ملک کی عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کا موقع ملا ضیاء 68, 69 کے انقلاب کی ناکامی کا ناگزیر عمل رد انقلاب تھا۔

اور ضیائی نرسری کے لگائے کے پودے اگرچہ پاکستان میں کبھی بھی پاکستان کے ثقافتی رویوں میں اپنا سایہ مکمل نہیں برقرار رکھ سکے لیکن وقت وقتا جمہوریت نامی بے ہودگی بھی ان پودوں کو منصوعی طریقے سے کھاد مہیا کرتی رہی ہے جو ضیائی نحوست ہی اِس بوسیدہ ریاست کے سرمائے کو تحفظ فراہم کر سکتی تھی.
وہ جو کل تک سوشلزم کے نام لینے والوں کو دفنا چکے تھے جن کے لیے اب محنت کش طبقہ اور نوجوان اسی سرمایہ داری کے اندر گھٹ گھٹ کے جینا مقدر بنا چکے تھے وہ پھر اس طلباء یکجہتی مارچ کے بعد چہ مگوئیاں کرنے پر مجبور ہیں کیا پاکستان میں سیاست تقسیم ہو رہی کیا پھر دائیں اور بائیں کی سیاست ہو گی وہ پھر غلط بیانی سے نوجوانوں کے ذہنوں پر بے ہودگی مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں دائیں بازوں کی سیاست کا وقت اب جا چکا ہے پچھلی نصف صدی سے یہ دائیں بازوؤں کی کارستانیاں ہی ہیں بھوک,ننگ,لاعلاجی اور سماج سے انسان کو بیگانہ کر دینا دہشتگردی منشیات فروشی سے جسم فروشی کے دھندے پروان چڑھانا سرمایہ داری اپنی مراث میں لکھوا چکی اب سرمایہ دارنہ نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے اِس کے فضائل پیش کرنے والوں کو رد ہی نہیں دھتکار دیا جائے اب کوئی امریکہ بہادر بھی آس جاؤ جلال میں نہیں کہ انقلابی تحریکوں کو روکنے کے لیے کرائے کے ایجنٹ مہیا کرے یا جمعیت جیسے غنڈا عناصر کی ڈالروں سے پرورش کر سکے اور نہ سٹالن کی روسی ریاست کی بیورو کریسی ہے جو اپنے مفادات کے لیے تحریکوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کروا سکے ۔

اب کی یہ طلباء یکجہتی ترقی پسند تنظیموں کی طلباء کی موؤمنٹ سے ہوئی ہے اگلی بار کی موؤمنٹ خود سے ہو سکتی ہے بے شمار مسائل اور ناقابل حل تضادات بار بار طلباء کو سڑکوں پر آنے اور یکجہتی پر مجبور کرتے رہیں گے ترقی پسند طلباء تنظیموں کو ماضی کی طلباء تنظیموں کی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا اور بالکشویک لائحہ عمل کے تحت ہی اپنے مطالبات کو منواتے آگے بڑھتے محنت کش طبقے سے جڑت بنانی ہوگی اور اِس ریاست میں بسنے والے انسانوں کی مانگ اور آزادیاں سوشلسٹ انقلاب کے برپا ہونے سے ہی ممکن ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :