نئے برس کا پیغام

منگل 5 جنوری 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ایک پرندہ جب# زندہ ہوتا ہے تو چونٹیوں کو کھاجاتاہے مگر جب مر جاتا ہے تو وہی چیونٹیاں اس پرندے کو کھا جاتی ہیں ایسے ہی انسان جب زندہ ہوتا ہے تو مٹی سے رزق لیتا ہے مگر جب مرتا ہے تو مٹی کا رزق بن جاتا ہے ۔ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ وقت کے سمجھانے کا طریقہ سخت اورکربناک ہوتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اساتذہ اور کتابوں کی اہمیت اپنی جگہ مگر وقت کی سمجھائی بات حتمی ہوتی ہے اور ساری زندگی کے لیے سمجھ آجاتی ہے پھر بھی چند خوش نصیب ہی ہوتے ہیں جواس سمجھ کو استعمال کرنے کے قابل ہوتے ہیں ورنہ اکثر وقت پر سمجھ نہیں ہوتی اور سمجھ آجائے تو وقت نہیں رہتا ۔

وقت کا یہی المیہ ہے کہ یہ کسی کے لیے رکتا نہیں اور انسان وقت پرسمجھتا نہیں۔

(جاری ہے)

۔دیکھتے ہی دیکھتے نیا برس بھی رواں ہوگیا کہا جاتا ہے کہً کچھ نہیں بدلتا بس ہندسہ بدلتا ہے مگر تبدیلی کائنات کا اصول ہے سب کچھ بدل جاتا ہے زندگی رواں دواں رہتی ہے وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے جو لمحہ گزر جاتا ہے کبھی لوٹ کر نہیں آتا اس لیے جو وقت سے ضد لگاتا ہے اور ٹھہر جاتا ہے وہ کچلا جاتا ہے لہذا ہمیں مان لینا ہوگا کہ نیا برس یہ پیغام ضرور دیتا ہے کہ نئے برس کا نیا سورج نئی امید ،نئی زندگی اور اک نئی امنگ کے ساتھ طلوع ہوا ہے رات اور دن کا پھیر زندگی کے غم و خوشیوں کو ظاہر کرتا ہے رات جتنی بھی سنگین ہوگی ، صبح اتنی ہی رنگین ہوگی اس لیے پر امید رہنا چاہیے مزید بحیثیت مسلمان ہمارا اعتقاد ہے کہ جو بھی ہوتا ہے بہتر ہوتا ہے اور اس مالک دوجہاں رب کائنات کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا تو وہ جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ ہم انسانوں کے لیے کیا بہتر ہے تو مجھے یہ سوال نامناسب لگتا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا بلکہ ہمیں یہ گمان کرنا چاہیے کہ جو کھویا وہ ہمارا لیے بہتر نہیں تھا اور جو پایا وہ اس کی رضا ہے اور ہم اللہ کی رضا میں خوش ہیں گو کہ گذشتہ برس کے خسارے ، کرونا جیسے مہلک وبائی مرض سے اپنوں سے بچھڑنے کا دکھ اور حکومتی غیر سنجیدہ پالیسیوں کیوجہ سے فکر معاش بھٹکتی رہی ہے مگر اب کرونا ویکسین بن چکی ہے اور دنیا نے حفظان صحت کے اصولوں اور حفاظتی تدابیر کے مطابق جینا بھی سیکھ لیا ہے یعنی بہت کچھ بدل رہا ہے اور کائناتی تبدیلی معمول کے مطابق ہو رہی ہے لیکن دانشوران وطن اس سوچ میں ڈوبے ہیں کہ کیا قومی و ملکی سیاست اور نظام حکومت میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی یا موجودہ برس بھی سیاسی موشگافیوں ،حکومتی نادانیوں ، اپوزیشن کے مفاداتی گٹھ جوڑ اور شاہ خرچیوں میں صرف ہو جائے گا اور نوکریاں تو ملی نہیں مگر قیمتوں میں اضافے کی خبریں مل رہی ہیں تو وقت کیسے گزرے گا لوگ اپنے خاندان کی کفالت کیسے کریں گے بد قسمتی سے حکومتی عہدے داران کو اپنے پانچ برس مکمل کرنے کے علاوہ کوئی فکر ہی نہیں ہے تبھی تووہ ہر پلیٹ فارم پر ماضی کے حکمرانوں کی ناقص کار کردگیوں ،نا اہلیوں او ر اپنی غیر مقبول کامیابیوں کے افسانے سنارہے ہیں تبھی توکئی ناپسندیدہ لیڈران کو پھر یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ:
”کچھ وقت کی خاموشی ہے پھر شور آئے گا ۔

۔تمھارا صرف وقت آیا ہے ہمارا دور آئے گا“اور عوام سبھی کو یہ کہتے ہیں ”وقت مجھ پر دو کھٹن گزرے ہیں ساری عمر میں۔۔اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد “ تبدیلی کائنات کا اصول ہے مگر تبدیلی سرکار کا نہ کوئی دستور ہے اور نہ ہی تبدیلی منشور ہے تبھی تو کسی بھی سنجیدہ اور باشعور پاکستانی کو اگر سیاسی حالات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا جائے اور وہ پارٹی ورکر بن کر نہیں بلکہ ایک مخلص پاکستانی بن کر بات کرتا ہے تو بسا اوقات یہی کہتا ہے کہ ہم ایسے قسمت کے مارے ہیں کہ جس طرف بھی جائیں سیاسی بھیڑیوں کے شکار ہیں اور وہ اپنی کبھی قسمت کو کوستا ہے اور کبھی ان قیمے والے نان اور بریانی کھانے پر پشیمان ہوتا ہے جن کو صرف ایک بار کھانے سے وہ پانچ سال ذلیل ہوتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ کئی جانوروں کی طرح وہ انسان جو افضل ترین مخلوق خدا ہے وہ بھی بوٹی کھانے سے رہ نہیں سکتا اور کڑکی کسی دور میں بھی چلنے سے باز نہیں آتی اور وہ پھندے میں پھنس جاتا ہے پھر یہی حضرت انسان جانوروں کی طرح پانچ سال روتا رہتا ہے مگر سیاسی قائدین جو کہ عوام کو جذباتی کر کے بلیک میل کرتے ہیں اور کامیاب ہونے کے بعد ان ایک نوالہ کھانے والے نادانوں کی قسمتوں کے ساتھ پانچ برس کھیلتے رہتے ہیں اور اب تو سیاسی لوگوں نے اس فن میں ایسا کمال حاصل کر لیا ہے کہ بلے بلے چنگے اور سیانے لوگ ان کاریگروں کی ایک تقریر کی ہی مار ہوتے ہیں یا پھر وہ کسی چینل کے سیاسی ٹاکرے یا مذاکرے میں ایسے بیانات داغ دیتے ہیں کہ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ان کا کہا کسی مقدس ہستی کے کہے سے بھی افضل ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگ ان کی کال پر لبیک کہتے ہیں مگر حی علیٰ الصلوة کو نظر انداز کر جاتے ہیں
بہرحال اب کچھ کر کے دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی آبی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان آبی قلت کا شکار ممالک میں دنیا کے تیسرے نمبر پر آچکا ہے جو زرعی معیشیت کے مسائل کے لیے انتہائی مہلک ہے یعنی پاکستان جو آبی ،زرعی اور صنعتی وسائل میں مالا مال تھا آج اوروں کا محتاج ہوتا جا رہا ہے تو یونہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے منظم منصوبہ بندی ہے لیکن جو برسر اقتدار آتا ہے یہی کہتا ہے کہ ”سب اچھا ہے “ مگر جب حکومتی ایوانوں سے باہر ہوتا ہے تو ایسے تمام اعدادو شمار چیخ چیخ کر بتاتا ہے جیسے اس نے اپنے دور حکومت میں تارے توڑ کر عوام کی جھولی میں ڈال دئیے تھے حالنکہ اکثریت بدحال ہے نتیجتاً اخلاقی جرائم بڑھ رہے ہیں کہ سر عام لٹیرے مال و عزت لوٹ رہے ہیں یعنی کسی کو بھی کوئی خوف ہی نہیں اور یہ ہونا تھا کیونکہ جب ایک بچہ بچپن سے لیکر یونیورسٹی لیول تک کی تعلیم اس آس و امید پہ حاصل کرتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کا قیمتی سرمایہ استعمال کر کے کسی عزت دار منصب کو حاصل کرے گا اور اپنے اہلِ خاندان کے لیے ایک معقول قابل بھروسہ اور اچھا ذریعہ معاش بنے گا اس وقت اس خاندان کی حالت کیا ہوگی جب ان کا بچہ روایتی امتحانات میں تو ٹاپر رہے مگر بد نیتی پر مبنی تحریری ٹیسٹوں اور مکمل طور پر بد دیانتی کی بنیاد پر ان انٹرویوز کے نتیجہ میں وہ تو بیروزگار ہی رہ جائے مگر صاحب اقتدار اور مالدار بچوں کے بچے صاحب منصب بن جائیں جب بچوں کی زندگی کی ابتدا میں ہی اس طرح کی اقتصادی اور سماجی نا انصافیاں ہونگی تو پھر ا نھی بچوں کو زندگی میں جہاں کہیں بھی موقع ملے گا وہ گھات میں بیٹھے ہوئے کسی بھیڑیے کی طرح ہر ممکن جگہ پر کوئی ایسا داؤ لگائیں گے کہ انھیں نہ کسی اپنے پرائے کی شرم اور نہ ہی قانون و انصاف کی پروا ہوگی بلکہ احتساب سے بچنے کے لیے جس گھٹیا ترین درجے کی تربیت ہمارے سیاسی قائدین اپنے قول و فعل کے تضاد ، تضاد بیانیوں اور حقائق کو چھپانے کی مہارت سے کرتے آرہے ہیں اس سے وہ بھی سیانا ہوجائے گا اور اس چیز کا قائل ہو جائے گا کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی نہ اسے خوف خدا اور نہ ہی کسی مظلوم کی بد دعا کی پرواہ ہوگی جیسا کہ سید ابواالاعلیٰ مودودی نے فرمایا تھا کہ” اخلاقی جرائم لازمی طور پر خدا سے بے خوفی اور اور بے فکری کا نتیجہ ہوتے ہیں“ثابت ہوا کہ ہمیں اچھی اخلاقیات سیکھنے کے لیے اور جرائم سے پاک سوچ بنانے کے لیے اور تبدیلی لانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول پاک کی تعلیمات کی طرف بڑھنا ہوگا اور لوٹ مار کی بجائے اللہ کو اپنے لیے کافی سمجھنا ہوگا اورجو بھی اللہ کو اپنے لیے کافی سمجھتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے اور اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :