وہ خود بھی چشم تر ہوگا

جمعرات 18 فروری 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

سیاست ایک ایسا تار عنکوبت ہے جس میں بظاہر جو نظر آتا ہے ویسا نہیں ہوتا اور جو ہوتا ہے اس کا ادارک ایک عام سطحی سوچ رکھنے والا کبھی کر ہی نہیں سکتا یہی وجہ ہے کہ اب سیاست باقاعدہ ایک نفع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس میں پرانے سیاسی تجربہ کار ہی کامیاب ہیں ‘اس کا کھلا ثبوت تبدیلی سرکار کی حکومت ہے جس میں پوری قوم نے دیکھا کہ نوجوان قیادت کو ساتھ لیکر چلنے کا عزم لیکر نکلے اور کامیابی ملتے ہی مکھن سے بال کی طرح نوجوانوں کو نکال باہر کیا کیونکہ کرسی کی مضبوطی کے لیے جہاندیدہ دماغوں اور ووٹوں کی ضرورت تھی یقینا یہ بات کچھ عجیب لگتی ہے لیکن درحقیقت تجربہ کار سیاستدان ایک دوسرے کی مضموم چالوں سے واقف ہوتے ہیں اور مخالفین کی چالوں کو روکنا بھی خوب جانتے ہیں ‘خان صاحب کا مقصد ہر حال میں حصول اقتدار اور استحکام اقتدار تھا بایں وجہ تبدیلی منشور پر نظریہ ضرورت غالب آتا رہا اور اب حالات یہ ہیں کہ بے شمار محازوں پر صفر کارکردگی دکھاتی ہوئی تبدیلی سرکار کو اپنی بقا کی فکر لاحق ہے
شنید ہے کہ اسی خوف کی وجہ سے خان صاحب نے ایوان بالا کا انتخاب قبل از وقت اور اعلانیہ رائے شماری سے کروانے کا اعلان کیا تھا جس کی بنا پر قومی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی تھی کیونکہ مذکورہ اعلان غیر آئینی اور غیر یقینی تھا چونکہ اس افرا تفری کیوجہ سالہا سال سے جاری جوڑ توڑ کی سیاست اور ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ بتائی جا رہی تھی حالانکہ اس گورکھ دھندے میں سبھی سیاسی جماعتیں شامل ہیں اور لین دین تو سیاست کا حسن سمجھا جاتا ہے تبھی تو جہانگیر ترین کا سہارا لیکر راہیں ہموار کی گئی تھیں جس پر کسی کو کوئی شرمندگی بھی نہیں تھی ‘اس لیے ٹرانسپیرنسی جواز نے جہاں دانشوروں کو حیرت زدہ کیا وہاں مخالفین کو بھی سیاسی راز و نیاز منظر عام پر لانے کا موقع ملا کہ درحقیقت حکمران جماعت کو اکثریت کھونے کا خدشہ ہے اسی لیے اعلانیہ رائے شماری پر زور دیا جا رہا تھا اور ہم نے تبھی لکھ دیا تھا کہ اگر واقعی حکمران جماعت کے فائدے کی بات ہوئی تو نیا قانون بن جائے گا اوریوںآ نکھوں میں دھول جھونکی جائے گی کہ سب عش عش کر اٹھیں گے ویسے بھی اسمبلی اجلاس عوامی مسائل کے لیے نہیں بلکہ ایسے قوانین کے خاتمے کے لیے منعقدکئے جاتے ہیں جو افسر شاہی اور وڈیرہ شاہی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہوں ‘سچ ہے کہ ہوس وہ زہر ہے جو صاحب طاقت کو دنیا کی شرمندگی اور آخرت کے خوف سے بیگانہ کر دیتا ہے تبھی تو کسی نے مولانا رومی سے پوچھاکہ: زہر کیا ہے ؟فرمایا: ”ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو زہر ہے ،جیسے قوت ،اقتدار ،دولت ،بھوک ،لالچ ،محبت اور نفرت “ اور مجھے لگتا ہے کہ مقتدر حلقوں میں یہ زہر اس قدر پھیل چکا ہے کہ جو بھی قدم رکھتا ہے وہ سر تا پا زہر آلودہوجاتا ہے‘ اسے اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ پھر اپنے پالتو کتے بھی لگژری گاڑیوں میں گھومتے برے نہیں لگتے جبکہ اپنا حق مانگتے غریب کیڑے مکوڑوں سے بد تر لگتے ہیں کہ انھیں مسل دینے کے ہر حربے پر غور کیا جاتا ہے حالانکہ صدا لگتی ہے کہ :”طلب کے تقاضے پر کچھ غور تو کیا ہوتا ۔

(جاری ہے)

۔کوئی تیرے پاس آیا تھا خدا کے ہوتے ہوئے “یہی تو سارا مسئلہ ہے کہ جنھیں ہم خود چنتے ہیں ان ناخداؤں کو نا عاقبت اندیش مفاد پرست صاحب ثروت زمینی خدا بنا دیتے ہیں ‘ سوال تو یہ ہے کہ کروڑوں دیکر سیٹیں خریدی جاتی ہیں ‘ اپنے ایم پی اے ایز، ایم این ایز اور سینٹرز کومختلف مدعا ت میں کروڑوں دیے جاتے ہیں،پروٹوکول اور شان و شوکت پر لاکھوں خرچ کئے جاتے ہیں مگر عام عوام کے لیے کچھ بھی نہیں ہے؟بلکہ دو ماہ میں چوتھی بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے اور ادویات کی قیمتوں میں پانچ گنا اضافے پر غریب رو رہا ہے مگر حکومتی حلقوں میں سینٹ الیکشن میں آئینی ترمیم پرغوروفکر جاری ہے اور یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے
 ایک طرف ایوان بالا کے انتخابات اوپن بیلٹ کروانے کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے جسے پاکستان کی اعلیٰ عدالت کی رائے سے مشروط کیا گیا ہے اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے اراکین خیبر پختونخواہ اسمبلی کی ویڈیو لیک ہوچکی ہے جس میں چند ایک ممبران اسمبلی کو نوٹوں کی گٹھیاں لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جن پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ان کا تعلق اس گروپ سے ہے جنھوں نے گذشتہ الیکشن میں کروڑوں روپے لیکر اپنا ووٹ بیچا تھا اب جن پر الزامات ہیں ان کی ایسی ویڈیوز بھی ہیں جن میں انھوں نے قرآن پاک اٹھا کر قسمیں کھا ئی ہیں کہ یہ الزامات جھوٹے ہیں ‘ہمارے سیاسی شعبدہ بازوں کا کردار کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے پھر ہر الزام میں کتاب مقدس قرآن پاک کو کیوں لیکر آتے ہیں ‘صرف اور صرف سادہ لوح عوام کو جھانسہ دینے کے لیے‘ ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی مذمت کیوں نہیں کی جاتی ؟ یقینا ویڈیو پرانی ہے مگر جس مقصد کے حصول کے لیے وائرل کی گئی ہے وہ تو پورا ہو جائے گا مگر افسوس خان صاحب کا کرپٹ مافیا کے بلا تفریق احتساب کا دعوی ایک بار پھر سیاسی دعوی ثابت ہورہا ہے کیونکہ اب جبکہ اہم شخصیات کے نام ہر زبان پر ہیں جنھیں پیسے لینے والوں نے نامز د کیا ہے تو خاموشی کیوں ہے ؟پی ٹی آئی کی چھتری تلے سب کو پناہ کیوں میسر ہے ؟ اپنی بکل میں چورہوں اور دوسروں کے کپڑے سر بازار اتارنا کونسا انصاف ہے ؟ نیب اور الیکشن کمیشن خاموش کیوں ہیں انھوں نے ایکشن کیوں نہیں لیا ؟ جناب چیف جسٹس صاحب کو بھی نوٹس لینا چاہیے تھا ‘قوانین کا اطلاق ایک عام آدمی کے لیے کیوں اور اشرافیہ پر ان کا اطلاق کیوں نہیں ہے؟ بہرحال یاد رہے کہ جنھیں احتجاجی ہجوم میں بلند ہوتے شعلے اور دھویں کے بادل دیکھ کر فرق نہیں پڑا ‘ان کی زد میں جب وہ محل مینارے آئے ‘جو انھی کے ووٹوں‘ اور پسینے کی کمائی سے بنے ہیں تو راکھ بھی نہ ملے گی کیونکہ مکافات عمل اٹل ہے ‘ اس کی چکی چلتی بہت آہستہ ہے مگر پیستی بہت باریک ہے کیونکہ قدر ت کا یہ اصول ہے کہ جب ایک صبر کر رہا ہوتا ہے تو دوسرا مکافات عمل کے لیے تیار کیا جا رہا ہوتا ہے دانشوروں نے سچ کہا ہے کہ کسی کے ساتھ غلط کر کے اپنی باری کا انتظار ضرور کرنا چاہیے کیونکہ : ازل سے ہے مکافات عمل کا سلسلہ قائم ۔

۔۔ رلایا جس نے اوروں کو وہ خود بھی چشم تر ہوگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :