سپیڈ بریکر

ہفتہ 27 اپریل 2019

Saad Iftikhar

سعد افتخار

انیسویں صدی کے اوائل میں یورپ کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے،لوگ تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے،بھوک افلاس لوگوں کے گھروں میں پناہ گزین تھی۔اسی دور سے مسٹر کلارک اور اس کی فیملی بھی گزر رہی تھی ،یہ خاندان بھی تنگ دستی ہی کی زندگی گزار رہا تھا۔یہاں بات کو تھوڑا روک کر قارئین کو کالم کا معنی و مقصد سمجھانا چاہتا ہوں۔ انسان اس مادی دور میں ایک کہلو کے بیل کی طرح لگا ہوا ہے،دن رات ضروریات زندگی پوری کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے ۔

زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔بعض اوقات ایک ایسی مصیبت آن پڑتی ہے جو انسان کی ساری توقعات پر پانی پھیر دیتی ہے۔ایسے میں انسان ناشکری کرنے لگتا ہے،اپنی قسمت کو کوستا ہے،کبھی کبھار تو اپنے خالق سے گِلے شکوے کرنے پر بھی اُتر آتاہے ، لیکن اُس آئی بلا کے پیچھے رب کی حکمت کیا ہے ؟اسے نہیں جانتے اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناشکری کرنے لگتے ہیں ۔

(جاری ہے)

بسا اوقات اللہ تعالی ہمیں ایک چھوٹی سی مصیبت میں ڈال کر کسی بڑی مصیبت سے بچاتے ہیں ،امید ہے کہ اس کالم کو پڑھ کر ہم کسی حد تک اپنے رب کی مصلحتوں کو سمجھنے لگیں گے اور اس کی رضا پر آمین کہنے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔
مسٹر اینڈ مسز کلارک دونوں نوکری کرتے تھے، ان کے نو بچے تھے ،اتنے بڑے کنبے کی زندگی کچھ زیادہ خوشحال نہیں گزر رہی تھی ،میاں بیوی دن رات محنت کر کے بڑی مشکل سے اپنے خاندان کی روزی روٹی کا سامان کر رہے تھے ،اِن دنوں امریکہ دنیا کے لئے اور خاص طور پر اہل یورپ کے لئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی بنا ہوا تھا ،لوگ یورپ سے امریکہ جاتے ،2,4 سال کام کرنے کے بعد خاصے امیر ہو جاتے، کمپنیوں کے مالک بھی بن جاتے ۔

ایسے حالات میں کلارک نے بھی یورپ جانے کا فیصلہ کیا ،فیصلہ تو کر لیا لیکن زادِراہ کہاں سے لائیں ؟گیارہ لوگوں کا امریکہ جانا کوئی معمولی بات نہ تھی خیر کلارک نے تخمینہ لگایا اور پیسے اکٹھے کرنا شروع کر دئیے،کھانے میں کمی کر دی، پرانے کپڑوں کے ساتھ گزارا کرنے لگے اور ساتھ ساتھ پیسے اکٹھے کرنے لگے ،اس کے علاوہ زمین کا جو ایک ٹکڑا تھا وہ بیچا ،گھرگروی رکھا اور عزیز و اقارب سے کچھ ادھار لینے کے بعد دو سال کی محنت کے بعد اتنا کچھ اکٹھا ہو سکا کہ اب وہ امریکہ جا سکتے تھے۔

اب جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں ،دوست ،رشتہ دار ،الوداعی دعوتیں کرنے لگے ،مسٹر کلارک اور اس کی بیوی نے نوکری بھی چھوڑدی ،بچوں کو سکول سے فارغ کروا لیا گیا،وہ دور بحری جہازوں کا تھا ، یورپ سے آٹھ بندرگاہیں نکلتی تھیں ،تاہم کلارک نے بھی امریکہ کے لئے گیارہ ٹکٹ خرید لئے ۔
سب کچھ مکمل ہو جانے کے بعد آخری دنوں میں کلارک کا بیٹا اپنے دوست کو الوداع کرنے گیا کہ رستے میں بیٹے کو ایک پاگل کتے نے کاٹ لیا ،بچے کو ہسپتال پہنچایا گیا تو ڈاکٹرز نے اسے (کتے کا کاٹا)لکھ دیا، سکاٹ لینڈ میں یہ ایک رواج تھا کہ اگر کوئی مریض سیریس حالت میں ہوتا ،تو ڈاکٹرز اس مریض کے گھر کے باہر ایک پیلے رنگ کی چِٹ لگا دیتے ،جس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض زیر علاج ہے اور وہ کہیں ’آ،جا‘نہیں سکتا ، اب کچھ ہی دنوں کے بعد کلارک اپنے خاندان سمیت باہر جانے ہی والاتھا کہ ڈاکٹرز کے کلارک کے گھر پر بھی پیلی چِٹ لگا دی ،کلارک اور اسکا خاندان اب چاہ کر بھی کہیں نہیں جا سکتے تھے ،کلارک خاندان پر تو جیسے کوئی قیامت ہی آن ٹوٹی ہو ،دو سال کی انتھک محنت کے بعد جب جانے کا وقت آیا تو جا ہی نہیں سکتے ،کرتے کرتے وہ دن بھی آ گیا جس دن انہوں نے جانا تھا ،اس دن تو سارا خاندان اِک صدمے کی حالت میں تھالیکن پیلی چِٹ ابھی بھی کلارک کے دروازے پر لٹک رہی تھی ،کلارک اور اسکا خاندان امریکہ تو جا نہ سکا اب سارے گھر والے اس مریض بچے کو مجرم سمجھنے لگے ،اسے منحوس تصور کیا جانے لگا۔

کچھ دنوں بعد کلارک ٹکٹ واپس کرنے گیا تو پتہ چلا کہ ٹکٹ واپسی کی تاریخ تو گزر چکی ہے ،یہ سنتے ہی کلارک کے تو جیسے ہاتھ پاؤں ہی سن ہو گئے ہوں ،اب کنگال تو پہلے ہی ہو چکا تھا اور اوپر سے نوکری بھی چھوڑ دی ہوئی تھی ،گھر بھی گروی رکھوا چکا تھا ، عزیز و اقارب کے طعنے علیحدہ کہ بھئی امریکہ کب جا رہے ہو ؟ہر طرف سے باتیں سننے کو ملنے لگیں اور اس سارے کا سارا ذِمہ دار اُس مریض بچے کو سمجھا جانے لگا ،کلارک اور اسکے خاندان کی تو جیسے زندگی ہی رُک گئی ہو ۔

کچھ دن بعد دروازے پر دستک ہوتی ہے،کلارک جا کر دروازہ کھولتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس کا ہمسایہ اخبار پکڑے مسکرا رہا ہے ،وہ کلارک کو دیکھتے ہی اس کے گلے لگ گیا اور مبارک باد دینے لگا ،اخبار کی ایک سُرخی پر کلارک کی توجہ دلائی ، کہ دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز ٹائٹینک امریکہ جاتے ہوئے رستے میں ڈوب کر تباہ ہو گیا ،یہ خبر پڑھتے ہی کلارک کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگا کیونکہ کلارک اور اس کی فیملی بھی اسی ٹائٹینک کے ذریعے امریکہ جانے والے تھے ،لیکن اللہ نے ان کو ایک چھوٹی سی مصیبت میں ڈال کر ایک بڑی مصیبت سے بچا لیا ،وہ کتے کا کاٹا ان سب کی جانیں بچا گیا ،یہ ایک چھوٹی مصیبت (کتے کا کاٹنا)کلارک کی فیملی کے لئے ایک سپیڈ بریکرکے طور پر کام آئی، جس نے کلارک کی فیملی کو موت سے بچا لیا۔

اب وہی بچہ جو سب کی نظروں میں منحوس بنا ہوا تھا ،اب وہی سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا اب اسے خوش قسمت سمجھا جانے لگا ،وہ رشتہ دار جو پہلے طعنے دے رہے تھے لیکن اب وہ سلامتی کی مبارکبادیں دینے آرہے تھے ۔بعدا زاں کلارک نے جوتا سازی کا کاروبار شروع کیا اور آج تک دنیا میں اس کے جوتے پسند کیے جاتے ہیں ۔
ہماری زندگی میں بھی کئی اس طرح کے سپیڈ بریکر آتے ہیں ،کبھی کو ئی موٹر سائیکل سے گِر جاتا ہے ، کبھی کسی کا بچہ بیمار ہو تا ہے،کبھی نئے کپڑے پھٹ جاتے ہیں ،کبھی نوکری چلی جاتی ہے، کبھی کاروبار میں نقصان ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی محنت کرنے کے باوجود بھی اس کا پھل اس طرح سے نہیں ملتا ۔

حقیقت میں یہ ساری چھوٹی چھوٹی مصیبتیں ہمیں کسی بڑی آفت سے بچا رہی ہوتیں ہیں،یہ ہماری زندگی میں بھی سپیڈ بریکر کا کام کرتی ہیں ،جس کو ہم وقتی طور پر سمجھ نہیں پاتے اور قسمت سے گِلا شروع کر دیتے ہیں لیکن اس کے پیچھے ہمارے رب کی کتنی بڑی حکمت ہے اس کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ ہی کبھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہمیں چاہئیے کہ کبھی کوئی مصیبت آئے تو اس میں اللہ کی رضا سمجھ کر آمین کہہ لیا جائے،اپنے دل کو یہ جملہ کہہ کر مطمئن کر لیا جائے کہ’میرے رب نے اسے میرے حق میں بہتر سمجھا،لہذا میں اپنے رب کی رضا کو اپنی رضا پر ترجیح دیتا ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :