سلیم کی پریما

جمعرات 30 جنوری 2020

Saad Iftikhar

سعد افتخار

بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہر” سلیم“ میں ماں نے بچوں کی خاطر ایسی قربانی دی کہ جسے سن کر دل دہل جائے۔
”ٹائمز آف انڈیا“ کے مطابق سلیم شہر کی خاتون ”پریما“ نے اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ،اہل محلہ سے مدد کی اپیل کی لیکن کسی نے تعاون نہ کیا بچے بھوک سے مرے جا رہے تھے نہ جانے پہلے کتنے دن سے بھوکے تھے اور کوئی مدد کو تیار نہ تھا۔


یہاں پر بات کو تھوڑا سا روک کر ”پریما“ کی شخصیت کے بارے میں جان لیتے ہیں ،”پریما “بھارتی ریاست” تامل ناڈو“ کے شہر” سلیم“ میں اپنے تین بچوں کے ساتھ بیوگی کی زندگی گزار رہی تھی ،بچوں کے پیٹ کی خاطر کبھی گدا گری کرتی ،کبھی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ،کوئی معاشی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں فاقے بھی برداشت کرنا پڑتے ۔

(جاری ہے)

بچے بھی عمر کے اس حصہ میں تھے کہ نہ تو بھوک برداشت کر سکتے تھے اور نہ ہی اپنی ماں کی مجبوریاں سمجھ سکتے تھے ۔


ایک دن جب کہیں سے کچھ نہ ملا تو پریما نے اہل محلہ سے مدد کی اپیل کی ،اہل محلہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے پہلے لازمََا اس نے رشتہ داروں سے بھی مدد کی اپیل کی ہو گی ، لیکن التجا ء کو کسی نے سیریس نہ لیا ،مایوس ہو کر گھر واپس آ گئی ، اب وہ سوچ رہی تھی کہ اسے کھانے کی بجائے کہیں سے زہرمل جائے لیکن اگر کیا زہر کھانے کے پیسے اس کے پاس ہوتے تو وہ اپنے بچوں کو بھوک سے بِلکتا دیکھتی ؟ بس وقت یوں ہی گزر رہا تھا کہ گلی میں ایک پھیری والاآیا ،جو چیزوں کے بدلے پیسے دیتا تھا ، پریما پھیری والے کے پاس گئی اس نے مجبوریوں کی ماری کو کہا کہ آپ کے پاس اور تو کچھ نہیں ہاں ہم آپ کے بالوں کی وِگ بنا سکتے ہیں ،خاتون نے ایک لمحہ سوچے بغیر اپنے بال منڈوا کر اس پھیری والے کو بیچ دئے بالوں کی بدلے اسے 150روپے ملے 100کا اس نے بچوں کے کھانے کا بندو بست کیا اور 50سے زہر لے کر خودکشی کی کوشش کی لیکن اس میں اس کی جان بچ گئی ۔

محلے کے ایک گرافک ڈیزائنر نے پریما کی ساری کہانی کو سوشل میڈیا پر پر شئیر کیا ،جس کے بعد اہل محلہ نے خاتون کی ڈیڑھ لاکھ کی صورت میں مدد کی ۔اور بعد میں یہ ساری کہانی ”ٹائمز آف انڈیا“ پر شائع ہوئی۔
اس سارے واقعے میں ہمیں چند ایک چیزوں کے بارے میں جاننے کو ملتا ہے ۔ سب سے پہلیماں کی اپنے بچوں کیساتھ محبت، پھر غربت جیسی زحمت اور پھر مادیت پرستی ۔


ماں کی بچوں کے ساتھ محبت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ،ماں نے ہمیشہ اپنے بچوں کی خاطر بڑے سے بڑی قربانی بھی دی ۔کیونکہ ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جس کو اللہ پاک کی ذات نے سب سے زیادہ اپنی صفتِ رحمان و رحیم کا فیض عطا کیا اس لئے ماں اپنے بچوں کی تکلیف برداشت کر ہی نہیں سکتی اور اس کے لئے چاہے اسے اپنی جان کی بھی قربانی دینا پڑے تو وہ اس کے لئے بھی دیر نہیں کرتی ،کئی واقعات ایسے پڑھنے سننے کو ملتے ہیں جس میں ماں نے بچوں کی خا طر اپنا سب کچھ قربان کر دیا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ماں اپنے شوہر پر بھی بچوں کو ترجیع دیتی ہے کہ اگر اسے اپنے خاوند اور اولاد میں سے کسی کو چننا پڑے تو ماں کافیصلہ ہمیشہ بچوں کے حق میں ہی جائے گا ۔

یہ تو اشرف المخلوقات کا عالم ہے چرند پرند سمیت تمام جاندار اسی طرح اپنی اولاد کیساتھ ایک لگاو رکھتے ہیں کیونکہ اولاد ماں کے جسم کا حصہ ہوتا ہے پھر اس ایک حصے کو بچانے کیلئے کبھی اپنے بالوں کی قربانی دیتی ہے، کبھی اپنا گردہ بیچ دیتی ہے اور کبھی تو جان کی بازی بھی لگا دیتی ہے ۔کیونکہ ماں ہی خالق کے رحمان اور رحیم ہونے کی اس دنیا میں ایک واضح دلیل ہے۔


دوسرے نمبر پر غربت،اس دنیا میں سب سے بڑی زحمت غربت ہے انسان اس غربت سے لڑنے میں اپنی ساری زندگی گزار دیتا ہے ،غربت یا تو انسان کو باغی بنا دیتی ہے یا پھر انسان اس غربت سے لڑ کر معاشرے میں اپنا ایک نام پیدا کرتا ہے اور اس کے لئے پھر یہ غربت زحمت نہیں رہتی بلکہ رحمت بن جاتی ہے کیونکہ اس غربت کے سبب ہی تو وہ اس مقام تک پہنچا ہے لیکن ایسے سو میں سے پانچ لوگ ہی ہوتے ہیں جو غربت سے سیڑھی کا کام لیتے ہے ۔

باقی ایک اور طبقہ اسی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کرائم بھی کرنے لگتا ہے پھر وہ پیٹ کی خاطر ہر برے کام کو بھی جائز جانتا ہے،اور ایک بڑا حصہ اس کو قسمت کا نام دے کر ساری زندگی برداشت کرتے ہیں نہ تو کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی کبھی کوئی کرائم کرتے ہیں جو ہے اسی میں ہی گزارا کرتے ہیں ۔
آج کے پاکستان میں بھی غربت کے گھنے ڈیرے ہیں تیس سے چالیس فیصد لوگ ”پریما“ جیسی زندگی گزار رہے ہیں جن کے پاس یا تو کھانے کو ہوتا ہے یا پھر پہننے کو ۔

بلکہ لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں ۔پاکستان کا ایک بڑا عدد متوازن غذا سے محروم ہیں ،بچوں کی جسمانی اور ذہنی بڑھوتی نہیں ہو رہی ،بچیاں گھروں میں بیٹھے بیٹھے عمر کے بڑے حصے کو پہنچ رہی ہیں ،بیمار کا اپنی بیماری پر کنٹرول نہیں ،بچے پڑھائی کی بجائے کام کو ترجیع دے رہے ہیں ، نوجوان سٹریٹ کرائم کی طرف بڑھ رہے ہیں ایک بڑا طبقہ پاکستان سے یورپ اور عرب ممالک کی طرف ہجرت کر رہا ہے ہر سال لاکھوں جوان پڑھائی ادھوری چھوڑ کر بیرون ملک روز گار کیلئے جا رہے ہیں اسکے علاوہ جتنے بھی سوسائٹی میں نقص یا کرائم ہو رہے ہیں یا جنم لے رہے ہیں ان سب کے پیچھے کسی نا کسی طرح غربت کا ہاتھ ہی ہے۔


ٓآخر پر ہے مادیت پرستی ،یہ مادیت پرستی ہے کیا ؟ اسے ہم ایک واقعہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ،میرا ایک پٹھان دوست تھا اس نے مجھے بتایا کہ ان کے ہاں خیبر پختونخواہ والی سائیڈ پر اکثر قبائل میں یہ روایت ہے کہ اگر کوئی بندہ فوت ہوجاتا ہے اور وہ پیچھے اپنے بیوی بچے چھوڑ تا ہے تو یہ اہل محلہ اور قبیلے کی ذمہ داری ہے کہ ان یتیم بچوں کی پرورش کرنا ،عید یا کسی تہوار پر وہ سب سے پہلے اپنے محلے کے اس گھر میں جاتے ہیں بچوں کو ملتے ہیں پھر اپنے گھر جاتے ہیں ۔

اگر کسی گھر میں کسی دن کچھ اچھا پکا ہے تو وہ تب تک خود نہیں کھائیں گے جب تک وہ اپنے ان عزیزوں تک نہ پہنچا دیں جو ضرورت مند ہیں اسکے ساتھ ساتھ وہ بڑھ چڑھ کر ان کی مالی امداد بھی کرتے ہیں ،دوست مزید کہنے لگا کہ یوں کہہ لیں کہ اگر کوئی گھر پہلے غربت کی زندگی گزار رہا تھا تو باپ کی موت کے بعد وہ خوشحال ہو گیا کیونکہ اب ان کا کفیل پورا خاندان پورا قبیلہ ہوتا ہے۔

اور اب آ جائیں اپنی سوسائٹی میں بھائی بجائے مدد کرنے کے سگے بھتیجے ، بھتیجیوں کی جائیداد ہڑپ کرنے کے چکر میں لگا ہو تا ہے ،گلی محلے میں غریب کراہ کراہ کر مر جاتاہے اور حاجی صاحب عمرے پر تشریف لے جا رہے ہیں ،غریب کی بچی گھر بیٹھے بوڑھی ہو رہی ہے اور اپنی بچی کو لاکھوں کروڑوں کا جہیز دیا جا رہا ہے ، یہ سب ہی تو مادیت پرستی ہے ظاہری نمود نمائش کی خاطر سب کچھ بھول جانا ۔

لہذا ہمیں مادہ پرست نہیں بلکہ انسانیت پرست بننا چاہیئے ، کیا پتہ ہمارے محلے میں کبھی کوئی نا کوئی ایسی پریما ہو جس کے بچے بھوکے سوئے ہوں ،کوئی ایسا حاجت مند ہو جو سفید پوشی میں ہی گزارا کیا جا رہا ہوں ، کوئی ایسا رشتہ دار ہو جو اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر پاتا ہو،کوئی ایسا یتیم گھرانہ ہو جن کے کچن کا سودا ختم ہوا ہو ۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :