کرونا سے بڑی وباء جہالت

منگل 24 مارچ 2020

Saad Iftikhar

سعد افتخار

ایک دفعہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ لشکر لے کر شام کو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی مدد کو گے ،ملک شام سے پیچھے ایک جگہ سراغ ک مقام پر لشکر نے وقفہ کیا تو شام سے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ویلکم کرنے کے لئے سراغ تشریف لائے اور امیر المومنین کو خبر دی کی شام میں ایک وباء پھیلی ہے جس نے باشندوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہبات سننے کے بعد مہاجرین اصحاب کو اپنے پاس بلایا اور ان س رائے طلب کی کہ اس وباء زدہ علاقے شام کی طرف ہم کو جانا چاہیئے یا نہیں ؟ تو ان مہاجرین اصحاب میں اختلاف ہو گیا ایک گروپ نے کہا کہ نہیں ہمیں کسی بھی صورت اپنے تندرست بھائیوں کو لے کر اس وباء زدہ علاقے میں نہیں جانا چاہیئے اور دوسرے گر وپ نے ان کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم ایک مقصد کیلئے نکلے ہیں ہمیں وہاں جانا چاہیئے ،اس کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انصا ر اصحا ب کو بلایا اوران سے رائے لینا چاہی تو ان کا حال بھی مہاجرین جیسا تھا کہ دو گروپ بن گے ایک نے کہا کہ واپس چلتے ہیں اور دوسرے نے کہا کہ نہیں ہمیں شام ہی جان چاہیئے،اب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قریش اصحاب کو بلایا وہ جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے اور ان سے رائے طلب کی تو انھوں نے متفقہ طور پر کہا کہ اے امیر المومنین ہمیں اس وباء زدہ علاقے میں ہرگز نہیں جانا چاہیئے کیونکہ ہمارے ساتھ ہزاروں تندرست لوگ ہیں جو اس وباء کا شکار ہو سکتے ہیں ،اس ساری مشاورت کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ سنایا کہ ہم صبح سویرے واپسی کریں گے ہم اس وباء زدہ علاقے میں نہیں جائیں گے،حضرت ابو عبیدہ بن الجراح بول پڑے کہ اے امیر المومنین کیا آپ تقدیر سے بھاگ رہے ہیں (یعنی اگر تقدیر میں اس بیماری کا لگنا لکھا ہوا تو لگ جائے گی نہ لکھا ہوا تو نہ لگے گی)تو سیدنا عمر فاروقرضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں میں تقدیر سے بھاگ کر تقدیر کی طرف جا رہا ہوں ،ملک شام میں وباء کا آنا تقدیر ہے اور ہمارا یہاں سے ان لوگوں کو بچا کر لے جانا بھی تقدیر ہے۔

(جاری ہے)

بعض دفعہ تدبیر میں ہی تقدیر ہوتی ہے اگر آج ان حالات میں حکومت ہمیں ہجوم والی جگہوں پر جانے یا پھر گھر سے نہ نکلنے کا کہہ رہی ہے تو ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیئے نہ کہ تقدیر کی آڑ لے کر عوام کیلئے مزید مسائل پیدا کرتے پھریں کیونکہ اس وقت تدبیر ہی ہماری تقدیر ہے۔
ہم اس چیز کو آسان تو تب لیں ناں جب ہمارے پاس اس کی کوئی خبر نہ ہو ، چین ، ایران ، اٹلی جیسے ممالک ہمارے سامنے ہیں روز سینکڑوں لوگوں کی ڈیڈ باڈیز دیکھتے ہیں ، بلکہ اٹلی کے وزیر اعظم نے تو علی الاعلان اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا کہ ہم زمین کے سارے نسخے لڑا چکے ہیں اب کسی آسمانی مدد کے منتظر ہیں، اس سب کے باوجود بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔

 گجرات کا ایک رہائشی اسپین سے کرونا لے کر آتا ہے،6000 ائیر پورٹ پر رشوت دے کر گھر آ جاتا ہے فیملی سمیت کئی لوگوں سے میل جول کرتا ہے اور پھرفیملی سمیت کئیوں کو وائرس کا مریض بنا کر ہسپتال پہنچ جاتا ہے ،اس شخص نے آخر دھوکہ کس کو دیا ائیر پورٹ حکام کو یا اپنی فیملی کو ؟ ایران سے دو لوگ مہینہ پورا لاہور کی عدالت میں تاریخوں پر آتے رہے ، برطانیہ سے آئی ڈاکٹر ائیر پورٹ سے بھاگ کر گھر آ جاتی ہے ، تفتان سے آیا وزیر اعلی کا رشتہ دار کئی دن گھر گزارتا ہے اور اس وا ئرس کی افزائش کا سبب بنتا رہا کیا ایسے لوگوں کو نہیں چاہیئے تھا کہ ٹیسٹ کرواتے خود کو آئسولیشن میں رکھتے ؟ بلکہ ہر اس فرد پر یہ ذمہ داری ہے جس نے پچھلے دو ماہ سے کسی بھی بیروں ملک کا سفر کیا ہے وہ خود کو ٹیسٹ کروا کر کلئیر کروائے۔

پھر ان کے علاوہ ایک اور طبقہ بھی ہے جو ہر کام کام میں خود کو جابر بن حیان ثابت کرنے پر تُلا رہتا ہے کہ ،، میں کرونا نہ لگنے کی گارنٹی دیتا ہوں اگر کسی کو میری مجلس میں کرونا ہو گیا تو مجھے پھانسی لگا دینا ،، ایک اور صاحب ممبر کا استعمال کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ کرونا کچھ نہیں کہتا آ پ کندھے سے کندھا ملا کر نماز ادا کریں ۔ ایک اور محترمہ کہتی ہیں کہ رجب میں ہماری عزا داری روکنے کیلئے یہ سب کیا جا رہا ہے۔

ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہہ رہا ہے کہ وزیر اعظم امداد لینے کے چکر میں یہ سب کچھ کر رہا ہے یا پھر شاید اس نے قرضے معاف کروانے ہیں، ویسے اگر وہ قرضہ معاف کرواتا بھی ہے تو کیا وہ قرضہ اس کے یوٹیلٹی بلوں کا ہے ؟ یا پھر قرضہ لے کر اس نے اپنے بہن کی شادی کی ؟یا پھر پاکستان کا ہے ؟
ان حالات میں جب پوری دنیا میں ایک خوف و حراس پھیلا ہوا ہے ، ہر طرف ایک سناٹا ہے ہر فردکو لے کر ایک افراتفری سی ہے ،میڈیکل سٹاف اس سے لڑتے لڑتے اپنی جانیں قربان کر رہا ہے ،ایسے حالات میں ایسی غیر سنجیدہ باتیں کیا کوئی صحت مند دماغ کر سکتا ہے؟
کرونا ایک وباء ہے ہمیں اس سے احتیاط کرنی ہے اس سے مقابلہ کرنا ہے ،لیکن اس سے اتنا خوفزدہ بھی نہیں ہونا کہ ہر بندہ خود کو ہی مریض سمجھنے لگے ۔

کرونا سے پہلے ڈینگی ، ٹی بی، طاعون ، اچھوت جیسی کئی موذی امراض آئیں لیکن اس وحدہ لا شریک نے تب بھی پناہ دی اور اب بھی وہی پناہ دے گے کیونکہ وہی علی کل شیء قدیر ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :