ناکام سیاست اور پاکستان

جمعرات 30 اپریل 2020

Saeed Ahmad Khan

سعید احمد خان

جی ہاں ناکام سیاست میں اس سیاست کو اس سے بڑھ کر کوئی اور نام دینا پسند نہیں کروں گا آج کے لیڈر اپنی سیاست کو بچانے کے لیے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم اقتدار میں کیوں آئے،کیا زمیداریاں ہیں ہم پر میں تو کہتا ہوں سیاست کا مطلب تک کہی سیاستدانوں کو معلوم نہیں ہو گا سچ ہے اس لیے کڑوا لگے گا ایم این اے تک پہنچنے تک کے سفر کے لیے اس ان لیڈران کو کیا کیا کہنا پڑ تا ہے اور پھر جب وہ منزل تک پہنچ جاتے ہیں تو کیا کیا کرتے ہیں عوام کی کتنی خدمت کرتے ہیں
ہر بار ایک ہی بات کرتے ہیں وعدے کرتے ہیں کہ میں یہ کروگا وہ کروگا اپنے حلقہ کی عوام کو ریلیف دونگا لیکن جب یہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو پانچ سال تک نظر ہی نہیں آتے،پھر اگر کوئی ان کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو اس کو یا تو پولیس سے ڈراتے رہتے ہیں یا اپنے چیلوں سے دھمکیاں دیتے ہیں کیا اسے سیاست کہتے ہیں اگر ہاں تو میں لانت بھیجتا ہوں ایسی سیاست پر ،میں نے کہی بار اپنے علاقے کا ویزٹ کیا مسائل تو سب کے تھے لیکن ان سے اگر یہ کہا جائے کہ آؤ ان کے خلاف آواز بلند کرے ہمارے حق ہے ہم ان سے سب کچھ مانگ سکتے ہیں لیکن ان کا جواب خاموشی میں سر جھکا کر ملے گا جس کا مطلب ڈرتے ہیں ,ان سے جو اقتدار میں ہیں کیونکہ ان کی طرف سے پھر وہی دھمکی والا معاملہ آجاتا ہے یہ مسائل یہ سب کچھ ایک ضلع میں نہیں بلکے پورے ملک میں چل رہا ہے یہ بات حقیقت اور سچائی پر مبنی ہیں مجھے کسی پارٹی سے اختلافات نہیں لیکن سہی کو سہی اور غلط کو غلط کہنے کا حق سب کو ہوتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر کیوں ایسی سیاست کرتے ہیں لوگ اس سے تو سو گنہ بہتر ہے کہ سیاست نہ کریں گھر جا کر بیٹھ جائیں مجھے جب بھی وقت ملتا ہے تو میں سوشل میڈیا کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے علاؤ کچھ ۔

(جاری ہے)

نظر نہیں آتا اوپر جانے کی خاطر نیچے گر جاتے ہیں قدیم زمانے میں جب کوئی اقتدار میں آتا تھا تو اسے سب سے پہلے اپنا راستہ ہموار کرنا پڑتا تھا یعنی اس کے مقابلے میں جو بندہ ہوتا تھا اسے پہلے راستے ہٹانا پڑتا تھا پھر وہ تخت سنبھالتا اگر آپ غور سے دیکھوں تو آج بھی وہی نظام چل رہا ہے بس آج کل اس کام کو سیاست کا نام دیا گیا ہے سب کچھ وہی تو ہے میں اس جیموریت سے بہتر بادشاہی نظام سمجھتا ہوں آج کل کی سیاست سے بہتر ہے ایک بندہ ہوتا اگر غلط بھی ہوتا تو کم از کم پتا تو چلتا کہ کون غلط ہے اور کس نے وطن پاک کو لوٹا آج ہم یہ بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ کون سہی ہے اور کون غلط ہے کس نے وطن کو لوٹا کس نے وطن کے لئے دل سے کام کیا ،عوام ووٹ دیتی ہیں تاکہ محترم انکے مسائل حل کر سکیں لیکن یہ کیا اگر کسی  غریب سے پوچھو تو اس بیچارے کو یہ معلوم ہوگا کہ میں نے ووٹ کس کو دیا لیکن کبھی اس بیچارے نے اس بندہ کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوگی وہ تو چیرمین کو دیکھ کر ووٹ دے دیتے ہیں لیکن سب کام بھی تو چیرمین نہیں کر سکتا ہر جگہ تو چیرمین جا نہیں سکتا اسی طرح اگر کوئی مسلئہ آپ کو پیش بھی آگیا تو آپ ان کے گھر چلے جاتے ہیں جو آپ کے حلقے کا نمائندہ ہوتا پہلے تو ملاقات کرنا مشکل ہوگی دو تین دن آپ کو وہاں کے چکر کاٹنے ہونگے کیونکہ وہاں موجود محان لوگ جو خود کو پحنے خان سمجھتے ہیں وہ ملاقات کرنے نہیں دینگے کوئی نہ کوئی بہانہ بناتے رہتے ہیں پھر جب ملاقات ہوجاتی ہے تو آپ ان کے سامنے آپنا مسلہ رکھتے ہوں بس ایک بات آپ کو سننے کو ملے گی انشاللہ کچھ دنوں میں آپکا کام ہوجاۓ گا خاک ہو جائے گا کچھ دن سالوں میں بدل جاتے ہیں ان کی کل پرسوں لگی رہتی ہیں مجھے کسی سیاسی پارٹی سے اختلافات نہیں ہیں لیکن میں حقیقت بیان کر ہوں جو ان لوگوں کو بہت برا لگے گا جو اس حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں اور ہاں میں سب سیاسی لوگوں سے یہ نہیں کہہ رہا ان میں سے کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں جو اپنا کام دل سے کرتے ہیں اور سچائی پر قایم رہتے ہیں لیکن کچھ لوگوں سے کچھ نہیں ہوگا سب کو بدلنا ہوگا جب تک ہر بندہ اسی سوچ کے ساتھ نہیں جاتا سیاست میں کہ صرف اور صرف عوام اور اس ملک کی خدمت کے لیے میں یہاں اقتدار میں آیا ہوں تب تک اس پاک وطن کا کچھ نہیں ہونے والا یا اللّٰہ میرے وطن کی حفاظت فرما۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :