آزادی ہم اور پاکستان

پیر 4 مئی 2020

Saeed Ahmad Khan

سعید احمد خان

آج کچھ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ایک آزاد زندگی اور غلامی کی زندگی میں کیا فرق ہے یہ سوچ رہا تھا یقین مانوں آزادی کا باغ بہت خوب صورت نظر آیا جس میں میں سکون کا سانس لے رہا تھا نہ کسی کے آنے کی فکر تھی نہ کسی کے جانے کی آتے جاتے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا جو دل میں آتا وہ کرتا جو زبان پر آتا وہ کہتا ، جہاں دل چاہتا وہاں ڈیرہ ڈال دیتا،پھر غلامی کی طرف دیکھا تو زنجیروں میں جکڑے ہوا ایک ذلیل و خوار انسان کو پایا جو بضدل کی طرح جی رہا تھا نہ اپنی مرضی سے اٹھ سکتا ہے نہ اپنی مرضی سے بٹھ سکتا ہے کچھ بھی نہیں کر سکتا اپنی مرضی سے چاہتے ہوے بھی کسی چیز کو نہیں چاہ سکتا ایسا لگتا ہے جیسے دوزغ کی آگ میں جل رہا ہوں اتنا مجبور لاچار کہ اپنا بھی نہیں بن سکتا کسی اور کا کیا بنے گا،
جب سوچ سے بیدار ہوا تو اللّٰہ کا شکر ادا کیا اللّٰہ سے توبا کی محافی مانگی کہ یا اللہ مجھے کھبی میرے گناہوں کے بدلے میں غلامی کی زندگی کی سزا کھبی نہ دینا،اس وقت آپ سب اپنے اردگرد کا جائزہ لے اور اپنی زندگی پر غور کریں کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آپ کتنی سکون کی زندگی جی رہے آپ ذرا گزرے ہوئے وقت کا مطالعہ کرکے یقیننا آپ مجھ سے بہتر جان پاؤ گے مجھے ایسا محسوس ہو تا ہے اگر میں اپنی سوچ کے بارے میں بتاؤ تو یہی حقیقت ہے جو میں بتا رہا ہوں مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں جنت میں کھڑا ہوں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی اپنے مذہب کی عبادت سے تبلیغ سے نہیں روک سکتا اللّٰہ نے کتنی بڑی نعمت دی صرف ایک بار سارے مسلے مسائل کو ایک سائیڈ پر رکھ کر سوچوں یقیناَ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے ہم لوگ اللّٰہ کا شکر ادا نہیں کرتے ذرا اپنے دل میں اپنے دماغ سے پوچھو کہ کھبی آپ نے نماز پڑھتے ہوئے اللّٰہ کا شکر ادا کیا ہے کہ اس نے آپ کو آزادی جیسی نعمت سے نوازا ہے ایک آزاد ملک میں پیدا کیا، کیا آپ نے کھبی اللّٰہ کا شکر ادا کیا ہے؟ نہیں یقیناَ نا کا جواب ملے گا ہم بہت ناشکری کرتے ہیں ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن ہم بجائے شکر کہ ہم منافقت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اپنے مسلمان بھائیوں کو مارنے میں لگے ہوئے ہیں سازشیں کر رہے ہیں ایک دوسرے کے خلاف کچھ تو ایسے بھی ہونگے یقیناَ جنہوں نے کفار سے بھی ہاتھ ملا لیا ہوگا جب یہاں پر ان کی سیاست ناکام ہو جاتی ہیں تو پھر ملک کے خلاف سازشیں شروع کر دیتے ہیں وہ تو اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کی نظر ہے اس پاک وطن پر ہمیں ہر مشکل سے ہر سازش سے بچائے ہوئے ہیں ورنہ کب کا یہ وطن پاک بک چکا ہوتا یا کفار کی حکومت ہوتی،اگر آپ غور کریں آج کی سیاسی قیادت پر تو کیا آج کی سیاسی جماعتیں اپنے وطن کے بارے میں ذرا بھی سوچتی ہے آج کی نہیں بلکہ 30 سالوں سے سیاست نام صرف مطلب کی بنیاد تک رہے گیا ہے سیاست تو اچھی ہوتی ہے اگر آپ طریقہ سے کروں وطن اور وطن کے لوگوں کی خاطر کروں تو مانوں اللّٰہ بھی رازی ہو لیکن یہ کیا ایسے تو نہیں کہ صرف اپنی جیب بھرنے کی خاطر وطن کو برباد کر دوں کیا آزادی کو بیچ دو کیا  سیکھے گی ہماری آنے والی نسلیں، باقی سب باتوں کو چھوڑوں کیا آپ کا مذہب آپ کو اجازت دیتا ہے ایک غریب ایک مسکین کا حق کھانے کی بلکل نہیں میرا مذہب تو بالکل اجازت نہیں دیتا،اخر کیوں ہماری قوم سو گئی ہیں کیا ہوگیا ہے اس قوم کو  جو اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتی جو سہی کو سہی اور غلط کو غلط نہیں کہہ سکتی،
یا کروں غرناطہ کو جب 800 سو سال مسلمانوں نے حکومت کی لیکن جب درمیان میں غدار پیدا ہو گیا بزدل پیدا ہوگیا تو کفار نے تبا وبرباد کر دیا مسلم کو ،بھول گیا جب سلطنت عثمانیہ میں نااتفاقی اور یہی تیری میری والی بات جو آج کل پاکستان کے لوگوں میں ہے صرف اپنے مفادات کی خاطر دوستی رکھتے ہو اور خود کو مسلمان کہلانے کی بجائے سرایکی پنجابی پٹھان بلوچی کہلواتے ہوں کیا تم لوگوں نے تاریخ نہیں پڑی ،مسلمان تو ایسے نہیں ہوتے پھر میں کیا  مسلمانوں میں حوصلہ زندہ ہوتا ہمت ہوتی ہے سچائی ہوتی ،
بس میرا اللہ ہم سب کو ہدایت دے سچائی اور مذہب کے راستے پر چلائے ، آزادی کی زندگی عطاء فرمائے آمین،
آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :