طالبان اور افغانستان

جمعرات 26 اگست 2021

Saeed Ahmad Khan

سعید احمد خان

طالبان کا افغانستان پر دوبارہ پلٹ کر آنا نوید اسلام نوید انقلاب یا بین الااقوامی قوتوں کا نیا پلان نیا منصوبہ ان قوتوں کا اگلا ٹارگٹ کیا ہے اس پر قبل از وقت رائے قائم کرنا مناسب نہیں لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں نہتے لوگوں کے پاس اتنا بڑا اسلحہ گنز ٹینک لانچرز کمیونیکیشن کا نظام جس کے پیچھے رہاستی وسائل درکار ہوتے ہیں ان جنگی ساز و سامان کے لیے فیکٹریز کا موجود ہونا ضروری ہے سوال پیدا ہوتا ہے آخر یہ سب کچھ طالبان جیسی غیر حکومتی تتظیم کے پاس کہاں سے آرہا ہے  پھر افغانستان کی ماضی کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے روس کیسے ٹوٹا روس کو کن قوتوں نے شکست دی یہ قوتیں کون تھیں سب کو علم ہے امریکہ اور اس کی اتحادی  قوتوں نے مل کر روس کا بوریا بستر گول کیا روس کے بعد روس چین اور انکے غلام ممالک ایران پاکستان نے مل کر امریکہ اور اس کی اتحادی قوتوں کو بھاگنے پر مجبور کیا اس کا تعلق کسی شکست اور جیت سے نہیں ہوتا بلکہ حکمت عملی کی تبدیلی سے ہوتا ہے کہ ہم اپنے مقاصد و ہداف کو دوبارہ کن طریقوں سے حاصل کریں گے جبکہ اندر سے سرد جنگ جارہی رہتی ہے اس وقت دنیا میں جنگ بین الااقوامی قوتوں کے درمیان ہے نہ کہ عالم اسلام اور عالم کفر کے درمیان عالم اسلام ویسے بھی مردہ حالت میں ہے وہ کسی سے کیا جنگ کرسکتا ہے البتہ عالم اسلام کی خوش قسمتی یہ ہے کہ بڑی پاورز کی آپس میں جنگ و جدال کی وجہ سے کسی حدتک محفوظ ہے ورنہ عالم کفر کے سامنے عالم اسلام کو فتح کرنا مہینوں تو دور کی بات ہے دنوں فتح کیا جاسکتا ہے اس وقت دنیا میں بڑی طاقتیں ایک دوسرے کو ڈیکٹیٹ کر رہی ہیں اور عالم اسلام کی جذباتی نسل اسلامی نظام نافذ کرنے کے چکر میں ہے جس کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ہمارے پاس اس وقت کسی بھی شعبہ زندگی کی کوئی ایسی صعنت موجود موجود نہیں جس سے ہم اپنی پروڈکٹس تیار کرسکیں اگر ان صعنتوں کا ایک بھی پرزہ خراب ہو جائے تو ہماری مشنیری بند ہوجاتی ہے اور پھر انہی عالمی طاقتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کی امام ہیں جب یہ ساری چیزیں ہم نے انہی عالمی قوتوں سے مستعار لی ہوئی ہیں تو ہم دنیا کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں پھر ہم ان کی مرضی کے خلاف اسلام جیسا عظیم نظام کیسے نفاذ کر سکتے ہیں جس میں انسانیت کے لیے دائمی بقاء و سلامتی ہے جب بھی یہ قوتیں دنیا میں کوئی محاذ کھولتی ہیں تو سب سے پہلے عالم اسلام کو جذبہ جہاد اور نظام اسلام کے جذتی نعروں کے ذریعے استعمال کرتی ہیں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ نہ جہاد تھا نہ نظام اسلام کی تحریک تھی بلکہ عالمی قوتوں کے اپنے مقاصد کی تحریک تھی پھر ہم افسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے آپ اس بات پر غور کریں ماضی میں برطانیہ نے آل سعود کو سعودی عرب میں کیسے لانچ کیا اور ان کے ذریعے  وہابی تحریک کو کیسے پروموٹ کیا توحید جیسے عظیم نظام فکر عظیم نعرے کے ذریعے مسلمانوں فرقہ واریت کوجنم دے کر امت مسلمہ کو کیسے تقسیم کیا پھر جہاد جیسے عظیم نعرے کے ذریعے اسامہ بن لادن سے لے کر طالبان تک نیم عکسری فوج کیسے تیار کی گئی پھر اسکو دھشت گرد تحریک میں کیسے بدلا گیا پھر ان دھشت گردانہ بم بلاسٹ کے ذریعے کتنی بے گناہ انسانیت کا قتل عام ہوا اب بھی اگر ہم ہوش کے ناخن نہیں لیتے تو مستقبل میں مزید سانحات اور حادثات کےتیار رہیں اس تباہی میں عالم اسلام برابر مجرم کی طرح کھڑا ہے جس کے پاس اپنے جینے کے لیے مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی نہیں پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کی موجودہ لیڈرشپ عالمی قوتوں کی غلام ہے جو انکے اشاروں پر چلتی ہے اور انہی کے ٹکڑوں پر پلتی ہے لہذا عالم اسلام بالخصوص پاکستان کی نسل بدلتے حالات پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک بین الااقوامی سیاسی بصیرت کی حامل لیڈرشپ کا انتخاب کرے جو دنیا کی سازشوں کا مقابلہ بھی کرسکے اور اپنی نسل کو بھی بچا سکے اس وقت ہماری جتنی بھی لیڈرشپ ہے اس کے کاروبار سارے انہی عالمی قوتوں کے ممالک میں ہیں خواہ وہ سیاسی ہو یا فوجی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ کس ملک میں کس جنرل صاحب کے فارم ہاوس اور فرینچائز ہیں اور سیاسی راہنماؤں کی انڈسٹری فیکٹریزکمپینیز اور کاروبار کن کن ممالک میں  ہیں سوال پیدا ہوتا ہے ایسی  کرپشن زدہ لیڈرشپ کے زیرقیادت ہم  جدید دنیا کامقابلہ کیسے کرسکتے ہیں اور عظیم نظام ، نظام اسلام کا کیسے نفاذ کر سکتے ہیں ہم سے چار صوبے نہیں چلتے جبکہ عالم اسلام کا ایک ایسا حکمران بھی تھا جو 22 لاکھ مربع میل کو کنٹرول بھی کرتا تھا اور دنیا کی سازشوں کا مقابلہ بھی جس کا نام عمرفاروق تھا دوسری طرف ہماری کرپشن سے آلودہ لیڈرشپ ہے جس کے زیرسایا ہم اسلام نظام اور اسلام انقلاب کا خواب دیکھ رہے ہیں  یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ہرسازش کو جہاد اورنظام اسلام کے تناظر میں دیکھتے ہیں ایسا کیوں وہ ایسے ہمیں مذبیت کے جو ٹیکے لگا کر جذباتی کیا جاتا ہے  حالانکہ مذہب کی تعلیمات میں انسانی بقاء کے لیے جتنی بہترین راہنمائی موجود ہے وہ دنیا کے مروجہ کسی نظام میں موجود نہیں بدقستمی سے ہم بیماری کے علاج کے لیے جعلی ڈاکٹرز اور جعلی میڈیسن کا انتخاب اور استعمال کرتے ہیں جومسلسل ہماری ہلاکت کا باعث بنتی جارہی ہیں لہذا دعوت فکر ہے کہ ہمیں اپنے رویے سوچ و فکر کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :