آذاد کشمیر کے برقیات کے ملازمین کب تک مرتے رہیں گے؟؟

ہفتہ 13 جولائی 2019

Saeed Ur Rehman Siddiqui

سعید الرحمن صدیقی

مظفرابار کے گرڈ اسٹیشن کے المناک حادثہ جس میں برقیات کے ایک اہلکار راجہ عظیم ترک شھید اور دو اہلکار احسان اور محمد فاروق شیخ ذخمی ہو گئے، پورے شہر میں صف ماتم بچھا دیاہے عوام نے واقعہ کے فورا بعد احتجاج کی شکل میں شھید اور ذخمی برقیات ملازمین سے وفاکا اظہار کیا رات گئے تک شہر تاریکی میں ڈوبا رہا۔ قارئین یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی تقریباً ساڑھے تین سو برقیات ملازمین اب تک بجلی ٹھیک کرتے ہوئے جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ متعدد ذخمی ہو چکے ہیں حالیہ واقعہ میں محکمہ برقیات اور واپڈا کی غفلت کے بہت سے پہلو سامنے آئے ہیں اس واقعہ کی تفصیلات اسطرح سے ہے کہ  گوجرہ سٹی ٹو کی تار گریڈ اسٹیشن میں جلنے سے بجلی ہوگئی تھی جس پر محمکہ برقیات نے گرڈ کے حدود میں آپنے ورک چارج ملازم راجہ عظیم ترک کو گرڈ میں بجلی ٹھیک کرنے کے لئے چڑھایا تار ٹھیک کرنے کے دوران اچانک بجلی ان کر دی گئی جس سے برقیات ملازم راجہ عظیم کرنٹ لگنی سے جاں بحق ہوگیا دوسرا ہلکار محمد فارق شیخ کرنٹ لگنے سے ذخمی ہوگیا جبکہ تیسرے اہکار احسان نے جب کچھ دیر کے بعد کھمبے پر جاں بحق ہونے والے اہلکار کو ریسکیو کرنے کے لئے کھنبے پر چڑھنے کی کوشش کی تو تب بھی کھنمبے میں کرنٹ موجود تھا جس کے باعث وہ بھی کرنٹ لگنے سے جھلس کر ذخمی ہوگیا افسوسناک بات یہ ہے کہ احسان کے والد بھی دوران ڈیوٹی کرنٹ لگنے سے جان بحق ہو گئے تھے پولیس نے واقعہ کی باقاعدہ ایف آئی ار درج کر لی ہے اور گرڈ اسٹیشن کا ریکارڈ ضلعی انتظامیہ کے حکم پر پولیس نے ضبط کر لیا ہے مذکورہ واقعہ میں غفلت کے متعدد پہلو سامنے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

کیا محمکہ برقیات آذاد کشمیر گرڈ اسٹیشن کے گیٹ کے اندر بجلی ٹھیک کرنے کا مجاز ہے؟  یہ کہ سٹی ٹو کی مرمتی کے وقت فیڈر بند تھا تو پھر کرنٹ کیسے آیا؟ اگر اسی کیساتھ دوسرا فیڈر بھی تھا تو اسکو آف کیوں نہیں کیاگیا؟ غفلت کی اسقدر انتہا کیوں کہ ایک اہلکار کی کرنٹ سے موت کے باوجود دوسرا اہلکار کھنبے میں ویسے ہی رواں کرنٹ میں کیسے چڑھا؟ کام کرنے والے اہلکاروں کے پاس مکمل ٹی این پی (حفاظتی کٹ) کیوں نہیں تھی؟حکومت آذاد کشمیر کی واضح ھدایت کی روشنی میں کیا اسٹنٹ لائن مین ایلون کے وی پول پر چڑھ سکتا ہے؟ گریڈ پر مامور کس واپڈا اہلکار نے غفلت کا مظاہرہ کر کہ بجلی کیوں نہیں بند کی؟
قارئین محمکہ برقیات میں ایسے واقعات کی محکمانہ تکنیکی نوعیت کی تحقیقات کے لئے باقاعدہ ایک شعبہ بھی الیکٹریکل انسپکٹر کی سربراہی میں قائم ہے اس شعبہ نے آج تک برقیات کے کتنے حادثات کی انکوائری کی گئی؟ اس بارے میں محمکہ برقیات کے الیکٹریکل انسپکٹر راجہ عامر فیروز سے جب ٹیلی فون پر راقم نے تفصیلات پوچھی تو انکا کہنا تھا کہ عموما اس طرح کے واقعات کا جب محکمہ باضابطہ طور پر مجھے تحریک کرتاہے یا اطلاع دیتا ہے تو ہم اپنا کام کرتے ہیں مظفر آباد گرڈ اسٹیشن کا حادثہ چونکہ ہائی پروفائیل اور میرے ذاتی نوٹس میں بھی آچکا تھاچنانچہ میں اس حوالے سے محمکہ کو باضابطہ لیٹر لکھ چکا ہوں انہوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ محکمہ برقیات میں انکے ماتحت شعبہ الیکٹریکل انسپکٹریٹ   اس طرح کے کیسز پر کاروائی نہیں کرتا انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر اس کیس کی انکوائری رپورٹ محمکہ کو بیجھ دی ہے جسکا معاملہ ہمارے پاس آیا اب اگر ہماری انکوائری رپورٹ پر کاروائی نہیں ہوئی اسکا محمکہ خود زمہ دار ہے انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیاکہ محمکہ ہماری انکوائری کی سفارشات پر کاروائی نہیں کرتا جس سے غلط تاثر جنم لیتا ہے قارئین حقیقت میں محکمہ برقیات انتہاہی نان پروفیشنل اور بغیر بنیادی تربیت کے چلایا جا رہا ہے بجلی کا خطرناک ترین کام کرنے والے ملازمین کی بنیادی تربیت کا کوئی انتظام سرے سے ہے ہی نہیں ورک چارج اور نہ تجربہ کار ورک چارج ملازمین کی لائف رسک کی ڈیوٹی سونپ دی جاتی ہے سخت ترین کام اور اضافی ٹائم کام سے یہ ورک چارج ملازمین اعصابی اور ذہنی دباو کا عموما شکار رہتے ہیں اوپر سیسینئرز کا بھی دباو ہوتا ہے کہ اگر مستقل ہونا ہے تو پراگرس دو۔

بلکل یہی معاملہشہید برقیات ملازم راجہ عظیم ترک کا تھا جو کافی عرصہ سے اپنی نوکری کے لئیپریشان اور افسران کے سامنے توسیع کیلئے گزارشات کرتا رہتا تھا اور اسے یہی کہا جاتاہے کہ توسیع کروانی ہے تو پراگرس دوشہید راجہ عظیم کے دفتری ساتھیوں نے بتایا وہ صبح سب سے پہلے دفتر حاضر ہوتا اور رات دوبجے چھٹی کرتا اضافی ٹائم لگاکر وہ شدید ذہنی و اعصابی دباو کاشکار تھا وہ اپنے کام سے خود کا منوا کر محمکہ برقیات میں مستقل ہونا چاہتا تھا بلاخر اس نے اپنی جان فرائض نبھاتے ہوئے قربان کر کہ اپنے پیشے سے بے لوث کمٹمنٹ اور فرائض کیساتھ والہانہ وابستگی کی انتہا کر دی اس سے قبل بیشتر ورک چارج ملازمین دوران ڈیوٹی کرنٹ لگنے سے حادثات کا شکار ہوتے رہے لیکن بعد میں محکمہ کیسینئرز نے یہ کہہ کر اپنی جان چڑھاتے ہوئے سارا ملبہ ورک چارج ملازم پر یہ موقف اختیار کر کے ڈال دیتے ہیں کہ حادثے کا شکار ملازم انکے حکم کے بغیر اپنی مرضی سے ڈیوٹی پر گیا۔

یہ کیسا بھونڈاجواز ہے جو تراشا جاتا ہے ایسے ہی چہلہ بانڈی کے انتہائی محنتی اور فرض شناس برقیات ورک چارج ملازم محبوب کیانی کیساتھ بھی ہوا جب وہ بجلی کے پول پر بجلی ٹھیک کرتے کرنٹ لگنے سے شدید ذخمی ہوگیا تو محکمہ نے اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران شدید زخمی ہو کر قربانی دینے والے اس اہلکار کو اعزاز یا امداد کے بجائے اُلٹا اسی حالت میں یہ کہہ کر نوکری سے ہی نکال دیا کہ وہ محکمہ کے احکامات کے بغیر ہی بجلی ٹھیک کررہا تھا گویا کھنبے پر چڑھ کر بجلی ٹھیک کرنا اس غریب اہلکار کا مشغلہ تھا محکمہ برقیات ورک چارج ملازمین سے گدھے جتنا کام لیا جارہا ہے جسے وہ شدید اعصابی تناؤ کا شکار رہتے ہیں جو کسی وقت بھی مزید حادثات کی زد میں آ سکتے ہیں وزیر برقیات راجہ نثار علی خان نے جب محکمہ کو یہ واضح احکامات دیے ہیں کہ اسسٹنٹ لائن مین کھنبے پر نہیں چڑھ سکتا تو اسسٹنٹ لائن مین تو دور کی بات غیر تربیت یافتہ ورک چارج ملازمین کو کھنبوں پر چڑھا کر ان کی زندگی کو رسک پر کیونکہ لگایا جاتا ہے محکمہ برقیات کی یونین سے وابستہ ملازمین نے بتایا کہ اُن کو فراہم کی جانے والی حفاظتی ٹی این پی کٹ انتہائی ناقص ہوتی ہے پورے آزاد کشمیر میں سب ڈویژن سٹی ٹو مظفرآباد ریونیو اکھٹا کرنے میں سب سے پہلے نمبر پر ہے ہمیں جون میں ساڑھے 13ارب روپے جمع کرنے کا ہدف دیا گیا تھا جب کہ ہم نے ساڑھے 15ارب روپے جمع کرکے دکھایا جس میں محکمہ برقیات نے 3ارب 90کروڑ کا ٹیکس تو ادا کردیا لیکن ورک چارج ملازمین اور 32سو غیر جریدہ ملازمین کی اپ گریڈیشن نہیں کی گئی جس کیلئے سالانہ محض 10کروڑ کے اخراجات محکمہ مالیات نے دینے سے انکار کردیا ملازمین تنظیموں کے یہ بھی کہنا ہے کہ 8سے 15سال تک ورکچارج ملازمین فیلڈ میں کام کررہے ہیں اور سینکڑوں فرائض کی ادائیگی میں جاں بحق ہو چکے ہیں سینکڑوں معذور ہو چکے ہیں ان کے لواحقین کسمپرسی کی حالت میں ہیں ہر حادثہ کے چند روز بعد نیا بندہ بھرتی کردیا جاتا ہے کام کرنے والے فیلڈ ملازمین کو مستقل نہیں کیا جاتا جب کہ مستقل سینکڑوں ملازمین آفیسران کے گھروں میں اور پرائیویٹ کام کرتے ہیں ان کو تنخواہیں اور مرعات دی جاتے ہیں راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے لائن مین خورشید کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے اور چھ گھنٹے تک بجلی کے کھنبے پر لٹکا رہا افسوس اس بات کا ہے انکوائری کے لئے جانے والے آفیسران نے واپس آکر اپنے ٹی اے ڈی اے وصول کرلیے جب کہ کئی سال گزرنے کے باوجود فرائض منصبی کی انجام دہی کے دوران شہید ہونے والے خورشید کے ورثاء آج بھی اپنے حق سے محروم ہیں حکومت کو چاہیے کہ اس واقعہ پر سابقہ واقعات کی طرح چپ نہ سادھی جائے بلکہ اعلیٰ سطحی انکوائری کروائی جائے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :