آذاد کشمیرکےعدالتی بحران ان کی وجوہات اور حل کے لئے تجاویز

پیر 27 جولائی 2020

Saeed Ur Rehman Siddiqui

سعید الرحمن صدیقی

موجودہ آذاد کشمیر، ریاست جموں وکشمیر کا وہ علاقہ ہے جو مقامی ریٹائرڈ برٹش آرمی اور آذاد کشمیر کے مقامی لوگوں پر مشتمل نیشنل گارڈز نے ڈوگرہ راج سیب آذاد کرایا تھا آذاد کشمیر کے قیام کے بعد 24 اکتوبر 1947 سےحکومت آذاد کشمیر کانظم ونسق رولز آف بزنس کےتحت چلایا گیا جو حکومت پاکستان کی جانب سے نافذ کئیے جاتے تھے دلچسپ پہلو یہ کہ صدر ریاست کا انتخاب مسلم  کانفرنس کی مجلس عاملہ اور وزارت امور کشمیر کیا کرتی تھی عدلیہ اور انتظامیہ دونوں وزارت امور کشمیر کی بیوروکریسی کے ماتحت ہوا کرتی تھی آذاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے لڑاکا گروہوں یعنی نیشنل گارڈز کو آذادی کے بعد آذاد کشمیر رجمنٹ کے طور پر منظم کیا گیا لیکن بدقسمتی سے آئینی خلا برقراررہا اور اس رجمنٹ کو آذاد حکومت  اپنے ماتحت چلا نہ سکی تو اسے پاکستانی فوج نے انفنٹری کی ریگولر اکائی کے طور پر منظم کر کہ الگ  پہچان برقرار رکھتے ہوئے پاک فوج کا حصہ بنا لیا جو آج تک آذاد کشمیر رجمنٹ کے نام سے قائم ہے خیر آج کا موضوع یہ نہیں اس موضوع پر پھر کبھی لکھوں گا موضوع کی طرف آتے ہیں سال 1969 میں یحیی دور حکومت میں آذاد کشمیر کی تین سیاسی جماعتوں نے اتحاد ثلاثہ قائم کیا جو آذاد مسلم کانفرنس کے سردار ابراھیم ، لبریشن لیگ کے کے ایچ خورشید اور مسلم کانفرنس کے سردار عبدالقیوم خان کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ تھا  اتحاد ثلاثہ کی جانب  عبوری ایکٹ 1970 لایا گیا  اسطرح سے انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ معرض وجود آئی یہ آئین پونے چار سال نافذ العمل ہونے کے بعد 1974 میں ایک ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے تحت متذکرہ بالا تین ادارے پارلیمانی طرز حکومت کے تحت قائم رہے لیکن ان تین اداروں پر ایک سپریم ادارہ کشمیر کونسل بھی تشکیل دے دیا گیا1974 کے ایکٹ کے تحت آذاد کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل اپیلنٹ جوڈیشل بورڈ کے پاس ہوا کرتی تھی جسکو بعد اذاں 1977کی آئینی ترمیم کے تحت آذاد جموں وکشمیر سپریم کورٹ کا نام دے دیا گیا بدقسمتی سے 1977سے لیکر 1988تک مارشل لا کے زیر انتظام چیف ایگذیکٹیو کام کرتے رہے اس دوران برگیڈئیر حیات اور میجر جنرل عبدالرحمن حکمران رہے اس دور میں کہا جاتا تھا کہ عدلیہ میں ججز کی بھرتیاں انچارج وزارت امور کشمیر فیض علی چشتی کی منشا سے عمل میں آتی تھی جو خرابی کا باعث تھی اس پر مذید لکھوں تو توہین عدالت کی تلوار کا گلے پر چلنے کا اندیشہ پیدا ہو سکتا ہے لہذا فیصلہ تاریخ پر اور کشمیر کونسل کے ریکارڈ ومقدمات سید منظور گیلانی بنام وزیر اعظم پاکستآن وصادق تبسم ایڈوکیٹ وغیرہ بنام چئیرمین کشمیر کونسل دائرہ رٹ پٹیشن روبرو عدالت العظمی پاکستان سال 2009-10 دیکھے جا سکتے ہیں سال 1985 میں جمہوری عمل دوبارہ شروع ہوا تو سپریم کورٹ میں ججز تعیناتی کشمیر کونسل اور چیف جسٹس کی مشاورت سے عمل میں آنا شروع ہوئی جس پر آذاد کشمیر کے وکلا اور صحافیوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ یہ تقرریاں سیاسی اور برادری کی بنیاد پر شروع ہوئی ہیں جس تشویش کا پس منظر یہ تھا کہ خواجہ محمد سعید جو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ تھے اس وقت حویلی سے اپنی برادری کو منظم کر رہے تھے تو اس وقت ممبر سنٹرل کمیٹی پاکستان پیپلز پارٹی اور بعد آزاں وزیر اعظم آذاد کشمیر بننے پر ممتاز راٹھور نے خواجہ سعید کو ہائی کورٹ میں تعینات کر دیا اسی طرح یونس سرکھوی اور چودھری تاج بھی پیپلز پارٹی دور میں جج تعینات کئے گئے مسلم کانفرنس نے شریعت کورٹ قائم کی گئی جس کی آئین میں کوئی گنجائش تھی ہی نہیں یعنی یہ ادارہ غیر آئینی ادارہ تھا شریعت کورٹ کے قیام کے ساتھ ہی سردار سجاول خان سیشن جج کو ایڈیشنل جج ہائی کورٹ کے طور پر تعینات کیا گیا جس کے خلاف غلام مصطفے بنام سجاول خان کیس ہوا اور آذاد کشمیر کی وکلا برادری میں پہلی بار غیر قانونی تقرری کو چیلنج کرنے کی جرت پیدا ہوئی بعد ازاں شریعت کورٹ ایکٹ بنا جسے غلام مصطفی مغل نے چیلنج کیا جس پر ہائی کورٹ نے شریعت کورٹ کے قیام کو غیر آئینی قرار دیا جبکہ سپریم کورٹ نے اس ادارے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا یہ فیصلہ صحافیوں وکلا اور آئینی ماہرین کے نذدیک آج بھی ذیر بحث ہے آذاد کشمیر میں راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں بننے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے شریعت کورٹ کو ہائی کورٹ کے متوازی اور برادریوں کی ایڈجسمنٹ کو جواز بنا کر شریعت کورٹ ختم کر کہ ہائی کورٹ کے ججز کو شریعت اپیلنٹ بینچ کا درجہ دیا جسے آئینی ماہرین نے سراہا لیکن شومئی قسمت شریعت کورٹ کے ہائی کورٹ میں ادغام کے بعد آذاد کشمیر میں فاروق حیدر کی سربراہی میں مسلم لیگی دور حکومت میں پانچ ججز کی تقرری سوالیہ نشان بن گئی بن کر خوب لے دے شروع ہوگئ خیر اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں ،کشمیر کونسل اور آذاد کشمیر کے حکمرانوں نے2004 میں جسٹس چودھری تاج کو ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی بجائے ریاض اختر چودھری کو چیف جسٹس بنا دیا گیا جس کے خلاف بدقسمتی سے اس وقت کے وکلا نے کوئی آواز نہ آٹھائی اور نہ ہی جسٹس چودھری تاج نے اس تعیناتی کو چیلنج کیا ڈیڑھ سال بعد اسی ریاض اختر چودھری کو جج سپریم کورٹ بنا دیا گیا اور سنیئر ترین جج جسٹس منظورگیلانی کو بائی پاس  کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ تعینات کرلیا گیا جس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور بار کونسل نے خاموشی اختیار کئے رکھی لیکن آذاد کشمیر کے چند وکلا کرم داد خان ایڈوکیٹ وغیرہ بنام کشمیر کونسل رٹ دائر کی جو سپریم کورٹ نے اس وقت ضبط کر لی بعد ازاں جسٹس منظور گیلانی اور وکلا نے بھی صادق تبسم وغیرہ کے نام سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں وزیر اعظم پاکستان کے خلاف رٹ دائر کر دی ،اسطرح سے آذاد کشمیر کا عدالتی بحران پاکستان کی اعلی عدلیہ تک ذیر بحث رہا اور کشمیر کونسل کی مداخلت اور اپنے ہی بنائے گئے آئین کی خلاف ورزی منظر عام پر آئی جسکا نتیجہ 4 اپریل 2010 کوجسٹس ریاض اختر چودھری اور منظور گیلانی کے استعیفی پر منتج ہواالبتہ سپریم کورٹ کا نظام درست طور پر چلتا رہا جبکہ آذاد کشمیر ہائی کورٹ ایک دفعہ پھر ذیر بحث آنا شروع ہو گئی جس میں جسٹس آفتاب علوی اور جسٹس منیر کی تقری پر آئینی ماہرین کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے جسے چیلنج بھی کیا گیا اور2016 میں سپریم کورٹ نے وکلا کی رٹ کو تکنیکی وجوہات کی بنا پر خارج کر دیا مئی2018 میں موجودہ فارغ کئے گئےپانچ ججز پاکستان میں قائم مسلم لیگ نواز حکومت کے آخری ایام میں تعینات ہوئے تھے جو سیاسی اور آئینی اعتراضات کی ذد میں رہے جبکہ جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی سردار خالد ابراھیم نے ان پانچ ججز کی تقرری پر حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جس پر ممبر اسمبلی سردار خالد ابراھیم کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہوئی بعد ازاں خالد ابراھیم برین ہیمرج کے باعث انتقال کر گئے ایک طبقہ کا یہ بھی خیال ہے کہ خالد ابراھیم توہین عدالت کے الزام کے باعث ذہنی دباو کا شکار ہو گئے تھے خالد ابراھیم کے انتقال کے بعد درخواست توہین عدالت کا فیصلہ صادر فرماتے ہوئے قانون توہین عدالت کی تشریح کی گئ جو ریکارڈ پر موجود ہے آذاد کشمیر کے وکلا نے پانچ ججز کی تعیناتی کے خلاف تین سے ذائید مقدمات میں چیلنج کیا ہائی کورٹ نے وکلاکی رٹ خارج کر دی قارئین!یہ تو آذاد کشمیر کی عدلیہ کی تاریخ تھی  اس سارے عدالتی تاریخی پس منظرکو قارئین کے روبرو رکھنا اس لئے ضروری تھا تاکہ پتہ چلے آذاد کشمیر کے اعلی ادارے کس طرح کام کرتے رہے ہیں جو اختیارات حکومت پاکستان نے دئیے ہیں انہیں کیسے استعمال کیا جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئینی طور پر کونسے ایسے اقدام آٹھائے جا سکتے ہیں جس سے سیاست اور برادری ازم سے پاک شفاف عدلیہ کا قیام ممکن ہو اور عدلیہ کے وقار پر انگلیاں بھی نہ اٹھیں،اس کا حل آئین کے آرٹیکل 43 میں واضح طور پر درج ہے کہ صدر ریاست کسی بھی پاکستانی ہائیکورٹ کےجج کو چیف جسٹس عدالت العالیہ تین سال کے لئے تعینات کر سکتا ہے جو حسب ذیل ہے
"Provided that the president may appoint a retired judge of any high court of pakistant to be the chief justice or a judge of the high court for a period not exceeding three years and such person shall hold office till attains the age of sixty five years"
آذاد کشمیر میں تعینات ہونے والے ہر جج کی نسبت برادری ازم ،اثر ورسوخ، رشوت اور سیاسی وابستگی کے الزامات  کے دروازے آئین کے اس آرٹیکل پر عمل درآمد سے مکمل طور پر بند کئے جا سکتے ہیں پاکستآن سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس صرف ان وکلا کی سفارشات دیں جو انکے روبرو پیش ہوتے ہوں اور جج بننے کی اہلیت رکھتے ہوں اس طرح میرٹ پر جج بھرتی کرنے کا یہ طریقہ کار خالصتا آئینی بھی ہوگا اور وقت کی اہم ضرورت بھی آذاد کشمیر کے بعض وکلا میری اس تجویز سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن انہیں یہ حقیقت بھی دیکھنی چاہیے کہ 2010سے 2020 تک 14 ججز کو ہم غیر قانونی تقرریاں قرار دیکر فارغ کر چکے ہیں کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہنا چاہیے یا ہمیں آئین سے راہنمائی لینی چاہیے ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :