سرنڈر کرنے والے کشمیری خاندانوں کی مشکلات

پیر 10 جون 2019

Saeed Ur Rehman Siddiqui

سعید الرحمن صدیقی

آذاد کشمیر میں نوے کی دہائی میں بھارتی مظالم سے تنگ آکر ہجرت کرنے والے افراد کی ایک معقول  تعداد بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان اور آذاد کشمیر آنے والے افراد  کے لئے مقبوضہ کشمیر واپسی کی ریہبلیٹیشن پالیسی کے تحت  سال 2010 میں واپس مقبوضہ کشمیر چلی گئی تھی مقبوضہ کشمیر واپسی کے بعد ایسے لوگوں کو نہ تو بھارتی حکومت نے قبول کیا اور نہ ہی وہاں کے عوام نےبھارتی حکومت نے ان کی آباد کاری اور واپس عام ذندگی میں انہیں لوٹانے کے اپنے ہی وعدے پورے نہیں کئے جبکہ سرنڈر یعنیُ  رہبلی ٹیشن پالیسی کے تحت جانے والوں کو مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھی ناپسنددیدگی کا نشانہ بنایا کچھ کا تو وہاں معاشرتی بائیکاٹ بھی کیا گیا کہ انہوں نے بھارت کی سرنڈر پیش کش قبول ہی کیوں کی؟سرنڈر پالیسی کے تحت نیپال کے راستے بھارت جانے والے کشمریوں کی اکثریت آذاد کشمیر عسکری تربیت کی نیت سے آئی تھی لیکن بعد میں وہ آذاد کشمیر مستقل قیام پذیر ہوگئے اور پاکستانی شہریت حاصل کر لی آزاد کشمیر میں حکومت کی جانب سے انہیں فی کس گزارہ الاؤنس، تنظیموں کی طرف سے مدد، تعلیم کے مواقع،ملازمتوں اور پاکستان کے پروفیشنل تعلیمی ادارواں میں کوٹہ دیا جاتا تھا آذاد کشمیر اور پاکستان کے لوگوں نے نہ صرف انکی بے مثال مہمانوازی کی بلکہ یہاں کے لوگوں نے اپنے گھروں سے رشتے تک انہیں دئیے کچھ نے تو اپنی جائیدیں تک ان کے نام کر دی تھی لیکن 2010 میں بھارتی حکومت نے جیسے ہی ان کو سرنڈرکے تحت بھارت آنے کی پیش کش کی تو انہوں نے اپنی اپنی تنظیمیں چھوڑ کر او ر آزاد کشمیر میں قائم ہونے والے مضبوط مذہبی ،معاشرتی  اور معاشی ر شتوں کو ایکدم چھوڑ کر بھارتی پیشکش کو قبول کیا آذاد کشمیر میں انہیں ہر طرف سے بہت سمجھایا گیا آپ کے ساتھ دھوکہ ہوگا آپ بھارتی کی مکاری میں آکرسرنڈر نہ کریں لیکن سرنڈر کا فیصلہ کرنے والوں نے کسی کی ایک نہ سنی جن خاندانوں نے انہیں رشتے دئیے تھے جب انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی تو انکی بیٹیوں کو طلاق دینے کی دھمکیاں دیکر مجبور کیا گیا بیشتر نے تو اپنی پاکستانیوں بیویوں کو بچوں سمیت چھوڑ دیا آذاد کشمیر اور پاکستان میں بنائی جائیدیں بییچی گئی مظفرآبار میں بیشتر ان خاندانوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے ان لوگوں کو رشتے دینے کیساتھ جائیدادیں اور کاروبار بھی قائم کر کہ دئیےلیکن انہوں نے بھارتی پیش کش کےسامنے یہاں سب کچھ بیچ کر بھارت جانے کی تیاری کر لی آذاد کشمیر اور پاکستان میں اتنا پیار ملنے کے باوجود بھارتی پیش کش کے سامنے ان نوجوانوں نے ایسے آنکھیں بدلی جیسے وہ آذاد کشمیر اور پاکستان کو جانتے ہی نہیں تھےحزب المجاھدین چونکہ سب سے ذیادہ جنگجو رکھنے والی عسکری تنظیم تھے لہذا سرنڈر کرنے والے جنگجووں کی اکثریت بھی حزب المجاھدین سے وابستہ کشمیری نوجوانوں کی تھی پاکستان اور آذاد کشمیر حکومت نے سفارتی سطح پر نقصان اور کشمیری حریت پسند تنظیموں نے ان عسکریت پسندوں کی کھلی بغاوت کے باوجود واپسی کے خواہشمند ان کشمیری عسکریت پسندوں میں سے کسی کو بھی رکاوٹ نہیں ڈالی پاسپورٹ سے لیکر جملہ سفری ضروریات میں ہر طرح کا تعاون کیا گیا میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا ہے سرنڈر کرنے والوں کے سامنے ہاتھ تک جوڑے گئے کہ ایسا نہ کرو تحریک آذادی رسوا ہوجائیگی اور شھدا کے خون سے بے وفائی ہو گئی لیکن ان میں سے کوئی تحریکی قیادت کی بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوا اسکے باوجود سینے سے لگا کر پرنم آنکھوں سے انہیں پاکستان سےالودع کیا گیا نیپال پہچتے ہی ان عسکریت پسندوں نے خود کو اپنی پاکستانی بیویوں اور بچوں کے ہمراہ بھارتی حکام کے حوالے کر کہ پاکستانی پاسپورٹ بھی بھارت کے سامنے سرنڈر کر دئیے پھر وہی دھوکہ ہوا جس پر آذاد کشمیر میں ہی انہیں خبردار کیا گیا تھا 2010 سے آج تک میں نےاس دردناک موضوع پر ایسی کوئی تحریر محض یہ سوچ کر نہیں لکھی کہ اس حقیقت کو لکھنے سے دل ذخمی ہونگے لیکن مقبوضہ کشمیر پھسنے والی کبری گیلانی نے مجھے قلم آٹھانے پر مجبور کر دیا مقبوضہ کشمیر سے پاکستان واپسی کے لئے تڑپنے والی مظفر آباد دومیل کی رہنے والی کبریٰ گیلانی مقبوضہ کشمیر  کے ایک نوجوان محمد الطاف راتھر کے ساتھ 25 مارچ 2010 کو شادی ہوئی تھی۔

(جاری ہے)

لیکن شادی کے آٹھ سال بعد بھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے شوہر نے انہیں 30 نومبر 2018 کو طلاق دے دی۔ وہ اب واپس پاکستان جانا چاہتی ہیں لیکن انہیں بھارتی حکام کی طرف سے اس کی اجازت نہیں مل رہی ہےنئی دہلی میں پاکستان ہائی کمشن نے بھی کبریٰ گیلانی کو بھرپور مدد کر رہی ہے اس حوالے سے دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن بھارتی وزارت خارجہ سے بھی رابطہ کر رہا ہے جو تاحال کبری کی پاکستان واپسی پر پاکستانی ہائی کمشن سے تعاون نہیں کر رہا کبرٰی گیلانی کے پاسپورٹ کی معیاد چونکہ پوری ہو رہی تھی اس لئے پاکستان ہائی کمشن نے انہیں نیا پاسپورٹ بھی جاری کیا ہے 1990 کی دہائی میں سیز فائر لائن عبور کر کے آذاد  کشمیر ہجرت کرنے والے کشمیری پاکستان اور آذاد کشمیر میں طویل عرصے تک قیام کے دوران ان میں سے کئی ایک نے شادیاں کیں اور ان کے بچے بھی ہوئے۔

ان نوجوانوں کی وطن واپسی اور دوبارہ آباد کاری کے لئے بھارت نے جب 2010 میں ایک خصوصی پالیسی کا اعلان کیا تو آذاد کشمیر سے ایسے 1085 افراد نے درخواستیں دیں جو واپس مقبوضہ کشمیر آنا چاہتے تھےلیکن تحقیات کے بعد  حکومت بھارت نے ان میں سے صرف 219 درخواستیں منظور کر کے درخواست دہندگان کو نیپال اور دوسرے راستوں سے واپس مقبوضہ کشمیر آنےکی اجازت دے دی۔

بالآخر 2010 اور 2012 کے دروان 212 ایسے افراد واپس مقبوضہ کشمیر لوٹے۔ ان میں سے لگ بگھ 90 افراد کے ساتھ ان کی بیویاں اور بچے بھی تھےکبری بھی ان نوے بیویوں میں سے ایک تھی اس دوران کبری کے والد اور بہن بھی آذاد کشمیر میں وفات پا چکے ہیں لیکن کبری انکی آخری رسومات میں بھی شریک نہیں ہوسکی شوہر کے طلاق دینے کے بعد کبری لوگوں کے گھروں میںُ کام کر کہ اپنی گزر اوقات کر رہی ہے کبری تو ایک کہانی ہے ایسے بہت سے کہانیاں اور بھی ہیں جن پر آئیندہ قلم آٹھاوں گا مقبوضہ کشمیر میں شادی کے نتیجے میں جانے والی پاکستانی عورتوں نے ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے جسکا مقصد ان کے لئے پاکستان میں اپنے والدین سے ملنے کے لئے سفری دستاویزات اور آر پار آنے جانے کے مواقوں کی فراہمی کے لئے آواز آٹھاناہے
بھارت اور پاکستانی حکومتوں سے مطالبہ ہے کہ انسانی ہمدردی کے نام پر ان منقسم خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملنے کی سہولت فراہم کرکہ ان مظلوم لوگوں کے کرب کا خاتمہ کرے .

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :