سی پیک․․․․ادھورا سچ!!!

جمعرات 1 جون 2017

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

ایرانی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ آدھا بتایا گیا سچ جھوٹ ہو کرتا ہے۔آپ کہاوت سے اتفاق کریں یا اختلاف یہ آپ کی صوابدید ہے مگر یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ کڑوا مگر مکمل سچ اُس حقیقت سے کہیں بہتر ہوتا ہے جو ادھوری اور نا مکمل ہو اور اس میں جھوٹ کی چاشنی کی آمیزش ہو یا مشائبہ تک ہو۔ہماری حکومتی روایت رہی ہے کہ ہمارے ہاں اکثروبیشتر قوم کو مکمل سچ بتایا ہی نہیں جاتا اور تصویر کا وہی رُخ اور وہی حقائق بتائے جاتے ہیں جو حکومت وقت کو ”سوٹ“ کرتے ہیں۔

چاہے وہ کسی سائے پر بننے والا عدلتی کمیشن ہو یا کوئی غیر ملکی معاہدہ کبھی بھی اس قوم کو مکمل سچائی سے آگاہ نہیں کیا گیا کہ اس کی وجوہات کیا تھیں،ذمہ دار کون تھے کیا فوائد حاصل ہوئے کیا نقصانات ہوئے اور کون ذمہ دار تھے۔

(جاری ہے)

آپ سے پیک کی ہی مثال ل لیں۔ہمارے ہاں حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ سی پیک ایک”گیم چینجر “ہے اور یہ ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک” معجزہ “رونما ہونے جا رہا ہے جس میں پاکستان کے توانائی بحران،معیشت سے لے کر ہر ایک مسئلے کا حل پوشیدہ ہے۔

اگر آپ کو یا د ہو آج سے کچھ عرصہ قبل”تھر کول پراجیکٹ“ کے بارے میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ اس سے ہمارے ملک کی اگلے ایک ہزار سال تک کی بجلی کیلئے کوئلہ کافی ہوگا اور یہ ذخائر اتنے ہیں کہ کوئلے کے ان ذخائر کے سامنے سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کم پر جائیں۔پھر چنیوٹ کے پراجیکٹ کے بارے میں دعوٰی کیا گیا کہ اس سے سونے چاندے تانبے کے علاوہ یورینیم بھی نکلے گی اور دولت کی اتنی ریل بیل ہو گی کہ پیسے لینے والے نہیں ملیں گے اور پھر یوں ہوا کہ تھرکول اور چنیوٹ پراجیکٹ وقت کی دھول میں ماضی کا حصہ بن گئے۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پیک پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین اور شاندار معاہدہ ہے جو ہماری معیشت اور انفراسٹرکچر کو ایک نئی زندگی دے گا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے سے جڑے دیگر حقائق سے نہ تو عوام کو آگاہ کیا جارہا ہے اور نہ ان سوالات کے تسلی بخش جوابات دیے جا رہے ہیں ۔سی پیک کو ضرورت سے زیادہ ”اوور گلوری فائی“ کیا جارہا ہے اور عوام کو نامکمل حقائق بتائے جا رہے ہیں جو سراسر ناانصافی ہے پارلیمنٹ یا کسی بھی ایوان کے عوام پر یاکسی بھی سٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے سی پیک معاہدے کی مستعند تفصیلات موجود ہیں۔

لاہورن ہائی کورٹ نے جب اورنج لائن ٹرین منصوبے کی تفصیلات اور شرح سود Best Equity Ratio کا پوچھا گیا کہ اس پراجیکٹ کا فرض کن شرائط اور کس شرح سود کر لیا گیا ہے تو یہ جواب دیا گیا کہ یہ ایک سٹیٹ سیکرٹ ہے یوں معاہدے اور قرض کی مکمل معلومات تک رسائی کا نہ ہونا اس معاہدے کے شفاقیت پر شکوک وشبہات پیدا کر رہا ہے کہ آخر وہ کون سی شرائط ہیں اور قرض کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ہیں جن سے قوم اور عدالت کو مکمل طور پر با خبر نہیں کیا جارہا۔

سی پیک معاہدے کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اس کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔چین کی معیشت اور کی صنعت کا ارتکاد زیادہ تر اس کی مشرقی حصے ہیں جبکہ چین کا مغربی حصہ آبادی اورصنعت کے اعتبار سے مشرقی حصے سے بہت کم ترقی یافتہ ہے۔چین اپنے مغربی حصے بلخصوص سنکیانگ میں اس معاشی ناہمواری سے پیدا ہوتی بے چینی اور مرکز مخالف جذبات سے نمٹنے کیلئے وہاں شنگھائی طرز پر صنعت اور معاشی انقلاب لانا چاہتا ہے۔

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ چین کا ٹیکسٹائل سیکٹر مناسب شرح نمونہ حاصل کرنے کے باعث اہم غیر ملکی آڈرز حاصل نہیں کر پارہا اور یہ آرڈرز کمبوڈیا اور ویت نام منتقل ہو رہے ہیں ۔چین اپنی معیشت کی شرح نمو 7 فیصد تک لانا چاہتا ہے اور اس کو اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے نئی منڈیوں کی تلاش ہے۔2013ء میں چینی صدر شی چن پنگ نے چینی معیشت میں انقلابی تبدیلیوں ایکسپورٹ کو دنیا کی نئی منڈیوں تک پہنچانے کیلئے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR )پروگرام کا اعلان کیا جس کے تحت چین نے دنیا کے مختلف براعظموں میں اقتصادی راہداریوں اور اکنامک زون بنانے کی تجویز دی۔

اس ون بیلٹ ون روڈ پروگرام کے تحت چینی مصنوعات کی رسائی دنیا کی 63 فیصد آبادی تک ممکن ہوگی اور یوں چین OBOR سے اپنی موجودہ ایکسپورٹ کے حجم کو 2000 ارب ڈالرز سالانہ سے 35000 ارب ڈالرز تک لے جانے میں کامیاب ہوگا۔چین اس ون بیلٹ ون روڈ پروگرام پر 8.9 کھرب ڈالر ز سرمایہ کاری کر رہا ہے جس سے چھ اکنامک کوریڈور بنیں گے۔پہلا کوریڈور چین کے کم ترقی یافتہ مغربی حصے سنکیانگ سے ہوتا ہوا مغربی روس تک جائے گا،دوسرا کوریڈور وسطی چین سے منگولیا اور منگولیا سے جنوبی روس اور وہاں سے یورپ کے ملک ہنگری کے شہر بوڈاپسٹ اور وہاں سے ہالینڈ کے شہرروٹرڈیم تک جائے گا۔

تیسراکوریڈور چین سے وسطی اشیائی ریاستوں قارقستان اور وہاں سے روس کے شہر ماسکو تک جائے گا۔چوتھا راستہ چین سے تمام سنٹرل ایشین ریاستوں سے ہوتا ہوا ترکی تک جائیگا۔پانچواں کوریڈور سمندری راستے پر مشتمل ہے جو جنوبی چین سے سنگاپور وہاں سے مشرقی افریقہ اور وہاں سے یونان کے شہر وینس پر ختم ہوگا اور چھٹا کوریڈور مغربی چین کے شہر کا شعر سے گوادر تک مشتمل ہوگا۔

یوں ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ سی پیک جس پر ہم پھولے نہیں سما رہے اور اسے اپنی فارن پالیسی کی کامیابی قرار دے رہے ہیں وہ ہماری کامیابی یا ہماری کامیاب فارن آفس یا وزرات تجارت کی لانچنگ کا نتیجہ نہیں دراصل چین کا مرہون منت ہے اور یہ سی پیک چین کے (OBOR) منصوبے اور اس کی لانگ ٹرم اقتصادی پالیسی کا حصہ اور پائلٹ پراجیکٹ ہے۔
چین سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان میں 55 ارب ڈالرز خرچ کرے گا چین میں گیارہ ارب دالرز انفراسٹرکچر منصوبوں اور 35 ارب ڈالرز بجلی اور توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہوں گے جبکہ بقیہ رقم دیگر پراجیکٹس پر خرچ ہوگی۔

یہاں ہمیں یہ بات ٹھنڈے دماغ اور جذباتیت سے بالاتر ہو کہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ چین بنیادی طور پر ایک کاروباری ملک ہے اور وہ کوئی خیراتی ادارہ ایدھی فاؤنڈیشن یا چیریٹی نہیں ہے جو اربوں روپے کسی ملک پر ایسے ہی لٹا دے۔پاکستان میں آنے والے یہ 55 ارب ڈالرز نہ تو کوئی امداد ہے نہ کوئی خیرات ہے اور نہ ہی کوئی قرض حسنہ!یہ دراصل ایک”قرض“ ہے جو سرمایہ کاری کی شکل میں پاکستان کو دیا جا رہا ہے پاکستان کو یہ قرض 23 سے 30 سال میں واپس کرنا ہوگا اور اس پر شرح سود تقریباََ 17 فیصدسالانہ ہوگی یوں اس قرض کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو آنے والے سالوں میں ہرماہ تقریباََ7 سے 8 کروڑ ڈالرز ماہانہ ادا کرنے ہوں گے۔

پاکستان کے مجموعی قرضے اس وقت تقریباََ 80 ارب ڈالرز ہیں اور سی پیک کے اس قرض کو ملا کر پاکستان کو سالانہ 14 کھرب روپے قرضوں کی ادائیگی میں ادا کرنا ہوگا۔جبکہ چین کا اس سرمایہ کاری سے نفع کی شرح 17 فیصد سے 24 فیصد ہوگی اور چین 26 ماہ میں اپنی انویسٹمنٹ منافع کی صورت میں واپس حاصل کرے گا۔چین 55 ارب ڈالرز کی اس سرمایہ کاری سے سالامہ 100 ارب ڈالرز تک سی پیک سے آمدنی حاصل کرے گا۔


سی پیک کے تحت چین اور چینی کمپنیوں کو بے تحاشا مراعات حاصل ہوگی۔گوادر پورٹ پہلے ہی چین کی پاس ہے انرجی سیکٹر کی بات کریں تو توانائی کے زیادہ تر منصوبے کوئلے اور فرنس آئل سے چلائے جائیں گے۔پوری دنیا میں کوئلے سے بجلی بنانے کے کارخانے بند ہورہے ہیں یہاں تک کہ چین میں کوئلے کے کارخانے بند ہورہے ہیں کیونکہ یہ ماحول دوست نہیں ہوتے مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا چل رہی ہے ساہیوال میں بننے والا کول پاور پراجیکٹ اس کی عملی مثال ہے یہاں استعمال ہونے والا کوئلہ بھی امپورٹڈ ہوگا اور یہ امپورٹڈ فرنس آئل اور کوئلہ جہاں ہماری ماحولیات کو متاثر کرے گا وہیں یہ ہمارے امپورٹڈ بل میں بھی اضافہ کرے گا۔

اس کے بارے میں حکومت کی کیا منصوبہ بندی ہے یااس کا کیا حل تجویز کیا گیا ہے کسی کو نہیں معلوم اور نہ ہی ماحولیات کا کوئی بھی منصوبہ سی پیک میں شامل ہے موٹرویز کی بات کریں تو یہ معلومات غیر جانبدار ذرائع سے مل رہی ہیں کہ چینی ٹریفک موٹر ویز پر ٹال ٹیکس سے مستنثی ہوگی جبکہ ہمیں موٹرویز کی حفاظت اور مرمت کے لئے سالانہ 100 ارب روپے درکار ہوں گے۔

موٹرویز کے جال بچھنے کے بعد کم وپیش ایک لاکھ ٹریفک پاکستان میں آئے گی اور جائے گی اتنی ہیوی ٹریفک کو ڈسپلن میں لانے اور ہمیں حادثات سے بچانے کیلئے اور ہر مسافر کیلئے موٹروے کو محفوظ بنانے کیلئے ہماری ٹریفک کی کیا پالیسی ہوگی یہ ابھی تک نہیں معلوم ہمارے ہاں ہر سال تقریباََ45 ہزار افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوجاتے ہیں اور اربوں کی گاڑیاں تباہ ہو جاتی ہیں سی پیک کی ٹریفک کے سیلاب کے آنے کے بعد اگر ٹریفک قوانین اور باقاعدہ تربیت یافتہ ڈرائیور کو یقینی نہ بنایا گیا تو ملک میں ٹریفک اور حادثات کئی مسائل کو جنم دیں گے اس بارے حکومت کی کوئی منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔


ایک اور اہم نکتہ جو ماہرین اٹھا رہے ہیں کہ چونکہ چین اور چینی کمپنیوں کا پاکستان میں کاروبار کرنے کی بے پناہ مراعات دی جارہی ہیں یا ان کی تجویز ہے کہ کیا ویسی ہی مراعات ہماری کمپنیوں کو چین میں حاصل ہوں گی یا نہیں؟چین پوری دنیا میں سب سے سستی مصنوعات فروخت کرنے میں مشہور ہے، چینی کمپنیاں پوری دنیا میں سب سے سستا خام مال لیتی ہیں اور اپنی قوتِ خریدار بارگیننگ پاور کے باعث ان کو بہت کم ریٹس پر خام مال ملتا ہے جب یہ چینی کمپنیاں یہ سستا مال مصنوعات کی صورت میں بنا کر اور پاکستان سے دی گئی ٹیکس مراعات کے باعث مزید سستا کرکے پاکستان میں لائیں گی تو ہمارے مقامی صنعتکار ان سستی مصنوعات کی قیمتوں کا کیسے مقابلہ کریں گے۔

پاکستان جہاں خام مال کے ساتھ مہنگی اور مہنگی لیبر کے باعث ہم قیمتیں کنٹرول نہیں کر پارہے ان سستی چینی مصنوعات کو کیسے ڈیل کیا جائے گا۔جب چین پاکستان میں اپنی سستی مصنوعات ”ڈمپ“ کرے گا تو کیا پاکستانی حکومت مقامی صنعتکاروں اور ان سے جڑے لاکھوں افراد کے روزگار کو بچانے کی لئے ان سستی اشیاء کی حوصلہ شکنی کیلئے اپنی ڈمپنگ ڈیوٹی عائد کر سکیں؟اس بارے میں کو ئی واضح پالیسی ہے نہ کسی بھی پاکستانی فورم پر دستیاب نہیں ہے۔


سی پیک سے سب سے زیادہ خطرہ ہماری ایکسپورٹ کو ہو سکتا ہے ہماکل ایکسپورٹ پچھلے چند سالوں میں 24.6 ارب ڈالرز سے کم کر20.8 ارب ڈالرز رہ گئی ہے جبکہ ہمارا امپورٹ کا بل 44 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے یوں ہم دنیا سے تجارت میں 24 ارب ڈالرز سالانہ کا نقصان کر رہے ہیں۔ہمارے ایکسپورٹ کا سب سے اہم ستون اور مرکزی حصہ کاٹن اور کاٹن سے منسلک مصنوعات کا ہوتا ہے ہماری کاٹن کی مصنوعات کو سب سے زیادہ مقابلہ بنگلہ دیشی اور چینی مصنوعات سے کرنا ہوتا ہے۔

موجودہ حالات میں جب پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہورہا ہے یا بنگلہ دیش منتقل ہورہا ہے سی پیک کی وجہ سے آنے والی سستی اور Subsidized ٹیکسٹائل مصنوعات کا کیسے مقابلہ کرے گا۔؟سی پیک کے تحت ہم چین اور چینی کمپنیوں کو ہر طرح کی مراعات ٹیکس چھوٹ دینے کے پابند ہوں گے ایسے میں ہم چین سے آنے والی سستی مصنوعات کا کیسے مقابلہ کریں گے؟اس کے بارے میں کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی حوصلہ افزاء جواب یا پالیسی بیان ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔


چین ان منصوبوں پر اپنی لیبر لے آئے گا جب کہ پاکستانی زیادہ تر مزدوری تک محدود ہوں گے پاکستان اس معاشی یوم کا بھرپور فائدہ حاصل کرنے کے لئے ان کروڑوں بچوں کو کیسے سکولوں میں لائے گا جو اس سی پیک کا فعال حصہ بن سکیں گے یہ بھی نہیں معلوم ہمارے ہاں ویسے ہی لسانی گروہی اور دیگر اختلافات ہیں چینی سوشلسٹ اوربدھ مت کلچر کے ہمارے ہاں میل جول سے کیا اثرات ہوں گے اور ہم کس طرح اس مختلف کلچر اور زبان کو ویلکم کریں گے یہ بھی نہیں معلوم یہ معاشرتی اور سماجی میل باعث رحمت ہوگا یا زحمت یا اس کے کیا اثرات ہوں گے یہ ابھی تک طے نہیں کیے جا سکے۔


یہ اور اس جیسے اوربہت سے سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے۔سی پیک کی چکاچوند تصویر تو نظر آرہی ہے دوسرا رخ نہیں دیکھا جارہا تعلقات چاہے وہ انسانوں کے ہوں یا ملکوں کے وہ غیر مشروط نہیں ہوتے حتی کہ ماں باپ اور خالق اور مخلوق کا تعلق بھی غیر مشروط نہیں ہوتا اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ 55ارب ڈالرز کی یہ چینی نوازشات غیر مشروط ہوں گی۔انسانی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی ایک ملک نے دوسرے ملک کی تقدیر بدلی ہو۔ہمیں اپنی تقدیر خود بدلنی ہوگی یہ معجزوں کا دور نہیں ہمیں سی پیک کا مکمل سچ بتائیں اور اندھیروں میں نہ رکھا جائے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :