”انا پرست“اور ”میں“

ہفتہ 9 جنوری 2021

Saif Awan

سیف اعوان

کسی بھی حکمران کے ارداوں کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ اس کے فیصلوں کے ثمرات ہی قوم تک پہنچتے ہیں ۔کبھی انا پرست حکمران اپنی انا کی خاطر پوری قوم کا مستقبل داؤ پر لگادیتا ہے اور کوئی حکمران اپنی ”میں“کو مارکے قوم کامستقبل محفوظ بنادیتاہے۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد میں تحریک انصاف اورعوامی تحریک کے دھرنے کی پرواہ کیے بغیر پشاور میں فوری کل جماعتی کانفرنس بلائی۔

اس اے پی سی میں نیشنل ایکشن پلان بنایاگیا جس پر تمام سیاسی ومذہبی قیادت نے مکمل اعتماد کا اظہار کیا اس نیشنل ایکشن پلان کے ثمرات آج بھی قوم تک پہنچ رہے ہیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنی ”میں “کو مار تھا۔

(جاری ہے)

نوازشریف نے اپنا اقتدار بچانے کی بجائے پوری قوم کا مستقبل محفوظ بنانے کو ترجیحی دی۔2جنوری کو بلوچستان کے علاقہ مچھ میں 11کان کنوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا ۔

اس افسوسناک واقعہ میں شہید ہونے والے افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا ۔ان کے لواحقین نے بلوچستان کے مغربی بائی پاس پر احتجاجا دھرنہ دیدیا۔اس دھرنے کوآج سات دن ہو چکے ہیں ۔لیکن اب تک موجودہ وزیراعظم عمران خان کی ”انا“کو نہ تسکین پہنچی ہے اور نہ ہی ان کی ”انا“ختم ہونے کا نام لے رہی ہے۔ہزارہ برادری کے دھرنے میں ابھی تک پانچ حکومتی وزیراور مشیر پہنچ چکے ہیں ۔

وزیراعظم کے ایک مشیر نے تین دن قبل جب متاثرین کے لواحقین سے ملاقات کی تو انہوں نے اس مشیر سے کہا وزیراعظم آئیں گے تو ہم دھرنہ ختم کرینگے۔مشیر با تدبیر نے جوابا کہا اگر وزیراعظم یہاں آتے ہیں تو آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟مشیر صاحب کے یہ الفاظ انتہائی افسوسناک تھے ۔اب یہ ان ماؤں اور بہنوں کی قسمت ہے کہ ان کو ایسے حکمران ملے جو ان کے بچوں کے قتل ہونے پر بھی ایسے سوال کرتے ہیں۔


کل کافی دنوں بعد لاہور پریس کلب میں میری ملاقات روزنامہ ایکسپریس کے سینئر صحافی مجتبیٰ باجوہ سے ہوئی ۔باجوہ صاحب نے کہا ہاں بھائی سیف آج مریم نواز کوئٹہ پہنچ گئی ہے ؟میں نے کہا جی سر وہ ابھی مثاترین کے پاس پہنچی ہے۔مریم نواز کو دیکھ کر متاثرین کی خواتین مریم نواز کے گلے لگ کر روتی رہیں ہیں۔باجوہ صاحب بولے کہاں ریاست مدینہ کا دعوی کرنے والا وزیراعظم؟یہ تو کہتا تھا میں پوری قوم کا باپ ہوں ۔

اس کی ”انا“کب ختم ہو گی۔سختی سردی کے موسم میں وہ لوگ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں اور اس کو اسلام آباد سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ شخص ہر معاملے میں فیل ہوچکا ہے۔اس نے احتساب کا نعرہ لگایا تھا وہ بیانیہ بھی بری طرح پٹ چکا ہے۔نیب کا ادارہ بھی اس کا برابر کا حصہ دار ہے۔نیب کا کیس جب چھوٹی عدالتوں میں ہوتا ہے تو نیب روزانہ پریس ریلیز جاری کرتا ہے کہ ہمیں ملزم کیخلاف اہم ثبوت مل گئے ہیں ۔

جب وہی شخص سپریم کورٹ میں اپنی درخواست ضمانت دائرکرتا ہے تو پہلی پیشی پر ہی اس کی ضمانت ہو جاتی ہے ۔اس کاواضع ثبوت فواد حسن فواد،شہبازشریف کی آشیانہ کیس میں ضمانت،میر شکیل الرحمن ،خواجہ برادران،شاہد خاقان عباسی،احسن اقبال ،احد چیمہ اور ابھی کل ہی ڈاکٹر ڈنشا کی ضمانت ہوئی ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے کسی ضمانت کی مخالف نہیں کی۔اس کی سب سے اہم وجہ کہ نیب اگرضمانت کی مخالفت کرے گا تو سپریم کورٹ پھر ضمانت کے بعدفیصلہ بھی جاری کرے گی ۔

جس میں نیب کو ایک مرتبہ پھر ہزیمت اٹھانا پڑے گی۔باجوہ صاحب سپریم کورٹ کے ججز کے رویے بھی بھی نالاں تھے۔انہوں نے کہا ججز نے کبھی ڈی جی نیب اور چیئر مین نیب کو آج تک طلب نہیں کیا ان سے پوچھنا چاہیے کہ جس شخص پر آپ نے اتنے بڑے کرپشن کے الزامات لگائے ہیں وہ ثبوت ہمیں بھی دیکھائیں؟سپریم کورٹ کو بھی چاہیے کہ وہ چیئر مین نیب کو طلب کریں اور ان کوپوچھیں کہ وہ کس بنیاد پر ان سیاستدانوں کیخلاف انکوائریوں کی منظوری دیتے ہیں جو حکومت کے مخالف ہوتے ہیں؟
پاس ہی بیٹھے میاں طارق نے کہا کل لاہور کی احتساب عدالت میں شہبازگل کے ساتھ جو ہوا ہے مجھے تو ڈر ہے کہ کسی دن عمران خان کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔

میں نے کہا مسلم لیگ(ن) کی رہنما عظمیٰ بخاری تو بار بار کہتی ہے کہ کوئی بھی حکومتی وزیر ،مشیر یا ان کاکوئی رکن اپنے حلقوں میں جائے عوام ان کا استقبال ایسے طریقے سے کرینگے کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گئیں۔لہذا وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اپنی ”انا“پر عوام کے مسائل کو ترجیحی دیں ۔اناہمیشہ اپوزیشن میں ہوتی ہے جو حکومت سے تعاون نہ کرنے کی رٹ لگائے جبکہ حکومت اور ریاست کے سربراہ میں ”انا“کا عنصر ہی موجود نہیں ہونا چاہیے ۔وزیراعظم کو ہمیشہ اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے ۔سب کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے جس حکمران نے عوام پر اپنی ”انا“کو ترجیحی دی وہ کبھی کامیاب حکمران تصور نہیں کیا جا سکتا۔تاریخ ایسے ”انا پرست“حکمرانوں سے بڑی پڑی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :