راولپنڈی ایکسپریس

ہفتہ 30 اکتوبر 2021

Saif Awan

سیف اعوان

کچھ لوگ آپ کے آس پاس ایسے بھی موجود ہونگے جو سخت مزاج،بڑبولے،فوری ری ایکشن دینے والے اور بات بات پر سخت ردعمل دیتے ہیں لیکن ان لوگوں کی ایک خوبی سب سے بڑی اہم ہوتی ہے جو انکو دوسروں میں ہمیشہ نمایاں رکھتی ہے اور انکی اہمیت کو کم نہیں ہونے دیتی۔یہ خوبی ان کا اپنے کام میں ماہر ہونا ہے۔وہ جو کام کرتے ہیں شاید ہی ان کے ہم پلہ یا مدمقابلہ ہوسکے۔

ایسے ہی خصوصیات کے حامل ہیں ہمارے پیارے اور سب کے لاڈلے شعیب اختر المعروف راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے پوری دنیا میں جانے جانے والے۔شعیب اختر کو پاکستان،بھارت،بنگلادیش سمیت پورے یورب میں ایک لیجنڈ کرکٹر کے طور پر جانا ہے۔ان کی ایک خصوصیت جس نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا وہ ان کی گیند کی سو میل کی رفتار ہے۔

(جاری ہے)

ان کی گیندکا سامناکرتے دنیا کے بڑے بڑے اور نامور کھلاڑی گھبراتے تھے اور ان کی ٹانگیں کانپتی تھیں۔

شعیب اختر سے سب سے زیادہ خوفزدہ بھارتی کھلاڑی سارو گنگولی تھے۔سارو گنگولی دنیا کرکٹ کا ایک بڑا نام ہیں ۔ان کے بھی پوری دنیا میں مداح ہیں لیکن وہ جب بھی شعیب اختر کا سامنے کرتے انکی ہر ممکنہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی طریقے سے میں شعیب اختر کی گیند پر سنگل کرکے دوسری سائیڈ پر چلاجاؤں۔ایک مرتبہ شعیب اختر نے سارو گنگولی کو بونسر مارا تھا اسکے بعد گنگولی ان سے ایسا چولو ہوا کہ دوبارہ سامنا کرتے ڈرتا رہا۔


شعیب اختر بچپن سے ہی لڑائی جھگڑوں اور مار کٹائی کا شوقین تھا۔اسکے محلے اور سکول میں سب بچے اس سے ڈرتے تھے۔اسکی مسلسل لڑائیوں کی وجہ سے اسے اکثر گھر سے بھی مار پڑتی تھی۔سکول کے بعد کالج میں بھی شعیب نے اپنے اسی شہرت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے نام کے جھنڈے گاڑھے۔ایک دن وہ موٹرسائیکل سمیت پرنسپل کے دفتر میں گھس گیا۔جس کی وجہ سے اسکو کالج سے بھی معطل ہونا پڑا۔

شعیب اختر بچپن میں گلی ڈنڈے کا بہت شوقین تھا ۔جب آپ کی قسمت آپ کا ساتھ دے رہی ہو اور آپ کو سپر سٹار کا موقعہ دینے کیلئے تیار بیٹھی ہوتو آپ کیلئے کسی وقت بھی معجزہ رونما ہوسکتا ہے۔ایک دن شعیب راولپنڈی کرکٹ کلب میں میچ دیکھنے گیا ایک ٹیم کے پاس ایک کھلاڑی کم تھا۔جس کی جگہ پر شعیب اختر کو کھڑا کردیا گیا۔پھر جب اس ٹیم کی بولنگ آئی تو شعیب اختر نے بولنگ کرنے کا کہا جس پر کپتان نے اس کو چانس دے دیا۔

شعیب اختر جب بولنگ کیلئے سٹارٹ لینے لگا تو لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا کہ تم نے فیلڈنگ نہیں بولنگ کرنی ہے۔لیکن اس نے مذاق کی پرواہ کیے بغیر بولنگ شروع کردی۔اس کی پہلی گیند ہی بیسٹ مین کے ہلمٹ پر لگی جبکہ دوسری گیند اسکے سینے پر لگی۔پھر آہستہ آہستہ شعیب نے کرکٹ کھیلنا شروع کردی۔ایک دن شعیب اختر کی ملاقات عظیم کرکٹر ماجد خان سے ہوئی۔

یہ پہلی ملاقات اتنی خوشگوار نہیں تھی کیونکہ شعیب اختر سے جب ماجد خان نے اس کا نام پوچھا تھا تو اس نے کہا میرا نام شعیب ہے اور جلد پوری دنیا بھی میرا نام جان جائے گی۔اس پر ماجد خان نے کہا میں دعا کرتا ہوں تمہارا سر اپنے کندوں پر سلامت رہے۔پھر کچھ دنوں بعد راولپنڈی اسٹیڈیم میں اس کو قومی ٹیم پریکٹس کرتی نظر آئی اس نے اپنے دوستوں سے کہا جلد میں تمہیں ان میں کھیلتا نظر آؤ ں گا۔

جس پر دوستوں نے اس کا مذاق اڑایا۔شعیب اختر نے اپنے پہلے مقامی ٹیسٹ میں 11وکٹیں لے کر اپنی کامیابی کا لوہا منوالیا۔اس نے اگلا میچ انڈر نائینٹین ٹیم کی طرف سے نیوزی لینڈ کیخلاف کھیلا لیکن اس میں صرف دو وکٹیں ہی حاصل کی۔پھر کچھ دنوں پر کراچی کرکٹ اسٹیڈیم میں جونیئر ٹیم کی طرف سے 1994میں ایک میچ کھلا جس میں پھر دو وکٹیں حاصل کی۔اب شعیب کے گھر والے بھی خو ش تھے۔

لاہور میں پی آئی اے کی ٹیم کیلئے ٹرائل چل رہے تھے۔شعیب اختر اپنے ایک دوست اعجاز کے ہمراہ صبح کے وقت راولپنڈی سے نکلا۔کرایہ بچانے کیلئے دونوں بس کی چھت کے کبھی اوپر بیٹھ جاتے اور کبھی پیچھے لٹک جاتے۔جب شام کے وقت وہ لاہور پہنچے تو انکے پاس صرف پچیس روپے تھے۔پیسے کم ہونے کی وجہ سے دونوں نے رات تانگے میں سو کر گزاری۔اگلے دن شعیب اختر ٹرائل دینے پہنچا جس میں وہ سلیکٹ ہوگیاپھر ایک سال تک وہ پی آئی اے کی ٹیم کی طرف سے کھیلتا رہا۔

تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے اس نے پی آئی اے کی ٹیم چھوڑ دی پھر زرعی ترقیاتی بینک کی طرف سے کرکٹ کھیلنا شروع کردی۔پھر 1996میں انگلینڈ کیخلاف اے ٹیم کا میچ کھیلنے گیا لیکن اس میچ میں اچھی کارکردگی نہ دکھاسکا۔اسی سال اپنے کوچ آغا اکبر سے لڑائی ہوگئی جس پر پی سی بی نے اس پر ایک سال کی پابندی لگادی۔جب پابندی ختم ہوئی تو اس نے باقاعدہ فون کرکے آغا اکبر کو گالیاں دی ۔

اس نے کہا اب تم مجھے سٹار بنتا دیکھو۔اس نے پہلا ٹیسٹ میچ ویسٹ انڈیز کیخلاف 1997میں راولپنڈی میں کھیلا اس میں د و وکٹیں لی پھر اگلا میچ افریقہ کیخلاف کھیلا جس میں پانچ وکٹیں لے کر اس نے خود کو کامیاب بولر ثابت کردیا۔پھر کچھ دنوں بعد شعیب فٹنس مسائل کا شکار ہوگیا۔اسی وجہ سے اسے چھ ماہ کرکٹ سے دور رہنا پڑا لیکن اس کے بعد اس نے ایسا میچ کھیلا جس نے شعیب کو سپر سٹار بنادیا۔

17فروری 1999کے دن بھارتی شہر کلکتہ میں بھارت کیخلاف ٹیسٹ میچ جاری تھا۔شعیب نے پہلی وکٹ راہول ڈرویڈ کی لی دوسری وکٹ جب سچن ٹنڈولکر کی اڑائی تو شعیب دنیا کرکٹ میں ہیرو بن گیا۔اس میچ میں شعیب نے 8وکٹیں لی اور پاکستان میچ جیت بھی گیا۔شعیب اختر جب لاہور پہنچاتو لوگوں نے اس کو کندوں پر اٹھالیا۔لاہور پہنچتے ہی شعیب سب سے پہلے اس تانگے والے کے پاس گیا جس نے اسکو اپنے تانگے میں ایک رات سونے دیا تھا۔

اس میچ کے بعد شعیب اختر نے 1999کے ورلڈ کپ میں 16وکٹیں لی۔شعیب کے رویے کی وجہ سے پی سی بی انتظامیہ اور ساتھی کھلاڑی بھی تنگ آچکے تھے۔اس پر الزام لگتا تھا کہ وہ میچ سے پہلے پارٹیوں میں جاتا ہے۔2003کے ورلڈ کپ میں شعیب اختر نے سو میل کی رفتار سے جب گیند پھینکی تو پوری دنیا کو حیران کردیا۔شعیب اختر کی تیز رفتار گیند کے ساتھ بونسر بھی مشہور ہوگئے۔

گیری کرسٹن کو شعیب کے بونسر کی وجہ سے آنکھ کے نیچے دس ٹانکے لگے۔بونسر کے ساتھ ساتھ شعیب کا کیرئیر بھی سکینڈلز کی زد میں رہا۔مشکوک بولنگ ایکشن کے بعد ممنوعہ ادویات کے استعمال کے الزامات کا بھی سامناکرنا پڑا۔شاہد آفریدی اور محمد آصف سے بھی باقاعدہ اس کی لڑائیاں ہوئی۔بھارتی کھلاڑیوں سے بھی اس کی لڑائیاں معمول بن چکی تھی۔ہربجن سنگھ کو اس نے کہا میں تمہیں کمرے میں گھس کر مارو گا۔

پھرہربجن سنگھ نے ایک انٹرویو میں خود اعتراف کیا کہ اس نے ایک بار مجھے اور یوراج سنگھ کو کمرے میں بہت مارا تھا۔شعیب کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ شائقین سے بھی لڑائیاں کرنے لگا۔پھر اس نے 2008میں پی سی بی انتظامیہ کے منع کرنے کے باوجود بھارتی لیگ کلکتہ نائٹ رائیڈر کی طرف سے میچ کھیلے۔جس کے بعد شعیب پر پانچ سال کی پابندی لگی۔پھر کچھ عرصے بعد شعیب اختر اس وقت کے صدر پاکستان آصف زرداری کی سفارش سے ٹیم میں واپس آگیا۔

پھر اس پر بول ٹیمپرنگ کا بھی الزام لگا۔شعیب اختر نے اپنے کیرئیر کاآخری میچ نیوزی لینڈ کیخلاف کھیلا۔اس میچ میں شعیب نے نو اوور میں ستر رن کے عوض صرف ایک وکٹ حاصل کی اس کے بعد کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔یہ آرٹیکل صرف مجھے ڈاکٹر نعمان اعجاز نیاز کی ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت کی وجہ سے لکھنا پڑا ۔ڈاکٹر نعمان اعجاز پی سی بی میں میڈیا مینجر بھی رہ چکا ہے۔ڈاکٹر نعمان نیاز لیفٹینٹ جنرل حامد نیاز کے صاحبزادے ہیں ۔ویسے مجھے ذاتی طور پر ڈاکٹر نعمان نیاز بہت پسند لیکن انکے حالیہ رویے کی وجہ سے مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کے دل دکھی ہوئے ہیں۔ٹی وی پر بیٹھے چہروں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ہر کسی کو فردوس عاش اور قادر مندو خیل بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :