حکمت عملی کا فقدان

منگل 2 نومبر 2021

Saif Awan

سیف اعوان

عمران خان کا ستارہ ساری عمر لکی رہا لیکن وزیراعظم بننے کے بعد ان کے ستارے گردش میں آگئے۔عمران خان جیسے ہی وزیراعظم بنے ان کو اپنی کابینہ کا انتخاب اور پنجاب کی وزرات اعلیٰ کا انتخاب کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔جب انہو ں نے یہ انتخاب کرلیے تو پاکستانی اس انتخاب پر حیران رہ گئے۔عمران خان نے کابینہ میں ان لوگوں کو شامل کیا جو کبھی پرویز مشرف،آصف زرداری اور نوازشریف کی کابینہ کا حصہ رہ چکے تھے۔

ان دنوں ایک جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ کپتان ”پرانے مستریوں سے نیا پاکستان بنانے چلے ہیں“۔پھر عمران خان نے دوسرا انتخاب وزیراعلیٰ پنجاب کا کیا تو انکی جماعت ،اتحادی،اپوزیشن ،عوام اور سب سے بڑھ کر مقتدر حلقے ششدر رہ گئے ۔یہ بندہ کہاں سے نکل آیا۔

(جاری ہے)

جبکہ پنجاب میں علیم خان جیسے تجربہ کار اور منجے ہوئے کھلاڑی کو نظر انداز کرکے ایک ایسے شخص کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا گیا جس پہلے کبھی منیجمنٹ ،ایڈمنسٹریٹر یا بڑے لیول کی سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔

پھر وقت نے ثابت کردیا عمران خان کے دونوں انتخاب غلط ثابت ہوئے ہیں۔عمران خان نے اپنی ٹیم میں تو بار بار تبدیلیاں کیں لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ کا تبدیل نہیں کیا۔عمران خان کی حکومت کو بارہ سو دن ہو چکے ہیں لیکن ہر تین ماہ بعد ملک کو بڑے سکینڈل یا بحران کاسامنا کرنا پڑا۔عامر کیانی پر ادویات سکینڈل کا الزام لگا اس کو منظر سے ہٹایا گیا لیکن وہ آج بھی عمران خان کے ساتھ ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

پھر اچانک پیٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا تو عمر ایوب کچھ عرصہ کیلئے پس پردہ چلے گئے ۔پھر چینی کا سکینڈل آیا تو ان آفیشلی ڈپٹی وزیراعظم جہانگیرترین کیلئے وزیراعظم ہاؤس کے دروازے بند کردیے گئے۔پھر گندم اور آٹے کا سکینڈل آیا تو صرف پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے ازخود وزرات سے استعفیٰ دے دیا۔کورونا آیا تو سب سے پہلے مشیر صحت ظفر مرزا پر ایسا الزام لگا کہ پوری قوم تھو تھو کرنے لگ گئی اور دنیا حیران رہ گئی پاکستانی کیسی قوم ہیں ۔

ظفر مرزا پر دو کروڑ ماسک سمگل کرنے کا الزام لگا اور وہ بھی امریکہ کو ہمیشہ کیلئے پیارے ہو گئے۔پھر زلفی بخاری،غلام سرور اور شیخ رشید پر راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں بڑے پیمانے پر دیہاڑی لگانے کا الزام لگا اس میں صرف دو نیچلے لیول کے سرکاری افسر ہی بلی کا بکرا بنے جبکہ زلفی بخاری مستعفی ہوگئے لیکن وہ آج بھی عمران خان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں ۔

کورونا آیا تو دنیا بھر سے پاکستان کو تقریبا 6ارب ڈالرز کی امداد ملی ۔موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد نے کچھ دن کورونا کیس کی سماعت کی ۔ایک بار عدالت میں ڈی جی ایم این ڈی اے افضل گجر کو بلایا ۔پھر افضل گجر بھی ریٹائرڈ ہوگئے اورنہ چیف جسٹس نے کورونا کیس کی مزید سماعت کی اور آج کے دن تک نہ آڈیٹر جنرل پاکستان نے کورونا فنڈز نہ کی رپورٹ پبلک کی ہے۔

عمران حکومت کے سوا تین سالوں میں جیتنے بھی بحران آئے ان سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں بنائیی گئی ۔کیونکہ اس حکومت میں سب سے زیادہ حکمت عملی کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔جس کی وجہ سے ہربحران وقت کے ساتھ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھا ہی ہے۔عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو کہا خزانہ خالی ہے۔اس کیلئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ذاتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب،قطر،چین سمیت کئی مالک سے عمران خان کو قرضے لے کر دیے۔

لیکن عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو دو مرتبہ پاپاکستان سمیت دنیا بھر تماشا بنادیا۔ایک مرتبہ انکی توسیع کی سمری کے معاملے میں اور دوسری مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی کی سمری کے معاملے میں تماشا بنایا۔اس کے باوجود جنرل قمر جاویدباجوہ نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر بار ایک ہی پیغام دیا کہ پاکستان کی فوج جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے اور پاکستان کا روشن مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کراچی سے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا تو ان کا دھرنہ ختم کرنے کیلئے بھی چوہدری برادران نے عمران خان کے بہترین اتحادی ہونے کا ثبوت دیا ۔چوہدری برادران مولانا فضل الرحمن اور مقتدروں کے درمیان گارنٹر بن گئے ۔مولانا صاحب سے کیے وعدے تو وفا نہ ہوئے لیکن اس کے باوجودہ مولانا فضل الرحمن نے واضع داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی چوہدری برادران پر کیچڑ نہیں اچھالا اور نہ مقتدر حلقوں پر الزام تراشی کی۔

تحریک لبیک نے عمران خان کے دور میں دوسرا مارچ کیا پہلامارچ شیخ رشید اور پیر نور الحق قادری کی کاوشوں سے ختم ہوا ۔جس میں وعدہ کیا گیا کہ فرانس کے سفیر کو نکالنے کیلئے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی جائے گی پھر سب نے دیکھا حکومت نے ایک پرائیویٹ رکن سے وہ قرارداد ایوان میں پیش کی جس کو ایوان نے مسترد کردیا۔پھر تحریک لبیک کے امیر حافظ سعد رضوی کو عدالتی حکومت کے باوجود رہا نہ کرنے پر تحریک لبیک نے دوسرا اسلام آباد کی جانب مارچ کیا ۔

پہلے مارچ کی نسبت یہ مارچ ہنگامی طور پر کیا گیا لیکن اس سے نمٹنے کیلئے بھی حکومت نے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی ۔حکومت نے بات جیت کی بجائے طاقت کا راستہ اختیار کرنے کو بہتر آپشن سمجھا ۔حکومت نے پنجاب پولیس کے ذریعے تحریک لبیک کے کارکنوں کو شیلنگ ،تشدد اور گولیوں سے منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن تحریک لبیک کا کارکن منتشر ہونے کی بجائے ڈٹ گیا۔

عمران خان کے دور حکومت میں پہلے نیب آفس لاہور کے باہر مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں پر شیلنگ،فائرنگ اور تشدد ہوا پھرلاہور میں پی آئی سی کے باہر وکلاء پر فائرنگ ،تشدد اور شیلنگ ہوئی اورپھرتحریک لبیک کے کارکنوں پر شیلنگ،فائرنگ اور تشدد ہوا۔لیکن ہر بار کی طرح ایک بار پھر تحریک لبیک کی بجائے حکومت کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔اس بار حکومت نے مفتی منیب الرحمن صاحب کا سہارا لیا جن کو فواد چوہدری نے اس لیے چیئر مین روایت ہلال کمیٹی کے عہدے سے ہٹایا تھا کہ وہ عید کے چاند کا خود اعلان کرنا چاہتے تھے پھر انہی مفتی صاحب کی منتیں کرکے دوبارہ تحریک لبیک سے مذاکرات کیے۔

عمران خان پہلے دن سے ہوش کی بجائے جذبات سے حکومت کرنے کی کوششوں میں لگے۔اپوزیشن جماعتیں ہوں،مذہبی جماعتیں ہوں ،عدالت ہو یا انسانی حقوق کی تنظیمیں ہو ں ۔عمران خان ہر ایک کو ایک ہی تکڑی میں تولنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اگر عمران خان نے اپنا طریقہ انتخاب اور انداز حکومت تبدیل نہ کیا تو آنے والے دنوں میں انکو پھر کسی بڑے سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :