مہنگائی اور فرینڈلی اپوزیشن

بدھ 20 اکتوبر 2021

Saif Awan

سیف اعوان

کل میں اچانک پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کی ویب سائٹ دیکھ رہا تھا ۔اس پر صدر،سیکرٹری ،ترجمان ،سینئر نائب صدر کے بعد بڑے اور واضح حروف میں پی ڈی ایم کی آڈیالوجی اینٹی اسٹبلشمنٹ لکھا ہوا ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی جس کی بنیاد ہی ذوالفقار بھٹو نے اینٹی اسٹلشمنٹ کے نام پر رکھی تھی۔اس جماعت کے آج کل سربراہ آصف علی زرداری ہیں ۔

جو پی ڈی ایم کیساتھ بامشکل آٹھ ماہ ہی چل سکے ۔گزشتہ سال ماہ نومبر میں پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا اعلان کرنا تھا اسی سلسلے میں شہر اقتدار میں پی ڈی ایم کی ایک بڑی بیٹھک ہوتی ہے جس میں صرف لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا جانا تھا ۔لیکن آصف زرداری اس میٹنگ میں واضح کہہ دیتے ہیں کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور میں ایک کمزور آدمی ہوں لہذا میں اسٹبلشمنٹ سے نہیں لر سکتا۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ہی آصف زرداری نوازشریف کی وطن واپسی کی شرط بھی رکھ دیتے ہیں ۔جو انکو معلوم تھا کہ پوری نہیں ہو سکتی۔کیونکہ فی الحال ان دنوں میں نوازشریف کی وطن واپسی کا کوئی امکان نہیں تھا۔اس دن کے بعد پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرلیتی ہے۔بلاول بھٹو بھی اپنے نانا اور والدہ کے نقشے قدم پر چلنے کی بجائے اپنے والد آصف زرداری کی قدموں کے نشان پر قدم رکھنا شروع کردیتے ہیں ۔

وہ دن اور آج کا دن پیپلزپارٹی اینٹی کی بجائے پرو اسٹلشمنٹ جماعت بن جاتی ہے۔جبکہ آج کل یہی صورتحال مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ(ن) کی بھی بن چکی ہے۔شاید مسلم لیگ(ن) کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس ایک شخص کو ہٹایا جائے جس کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) اور نوازشریف اس نہج تک پہنچے ہیں ۔اس ایک شخص کے ہٹائے جانے کے بعد مسلم لیگ(ن) کا اینٹی اسٹلشمنٹ والا کیڑا بھی مر چکا ہے۔

نوازشریف اور مریم نواز کی تقریروں سے سلیکٹرز سلیکٹرز کا ذکر بھی ختم ہو گیا ہے۔ہم تو پہلے دن سے ہی کہہ رہے ہیں مسلم لیگ(ن) اینٹی اسٹلشمنٹ اور اپوزیشن کی جماعت نہیں ہے۔مسلم لیگ(ن) نے مسلسل دس سال پنجاب اور پانچ سال وفاق پر حکومت کی ہے۔اس لیے ان کو آرام دہ گاڑیوں میں سفر کرنے اور حکم جاری کرنے کی عادت سی پڑ چکی ہے۔اگر ساڑھے تین سالوں میں ملک میں مہنگائی بڑھنے کے جتنے ذمہ دار عمران خان اس سے کہی زیادہ ذمہ دار اپوزیشن جماعتیں بھی ہیں ۔

پاکستان اور پنجاب کی تاریخ میں شاید ہی اتنی بڑی اپوزیشن آئی ہو۔مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں ایک پیٹرول ایک روپیہ مہنگا ہوتا تھا تو عمران خان وزیراعظم نوازشریف اور حکومت کیخلاف ہر وہ لفظ استعمال کرتے تھے جو ان کو بطور رکن پارلیمنٹ نہیں کہنے چاہیے تھے۔پورے پانچ سال ہفتے میں ایک یا دو بار لازمی لاہور میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں محمود الرشید اور موجودہ سینیٹر اعجاز چوہدری لاہور پریس کلب یا پنجاب اسمبلی کے باہر مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے تھے۔

شاید تحریک انصاف کے اسی احتجاجی دباؤ کی وجہ سے ملک میں مہنگائی نہیں تھی ۔لیکن مجال ہے ان ساڑھے تین سالوں میں مسلم لیگ(ن) نے ایک بار بھی مہنگائی کیخلاف احتجاج کیا ہو۔اگر مسلم لیگ(ن) پی ڈی ایم کے جلسوں کو احتجاج کا نام دیتی ہے تو پھر انکا اللہ حافظ ہے۔اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں یہ لوگ اپوزیشن کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔مسلم لیگ(ن) کو نہ اپوزیشن کرنی آتی ہے اور نہ ہی مسلسل اینٹی اسٹلشمنٹ بیانیہ جاری رکھ سکتی ہے۔

کیونکہ ان دونوں چیزوں کا بوجھ برداشت کرنا مسلم لیگ(ن) کے بس کی بات نہیں ہے۔مسلم لیگ(ن) کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اینٹی اسٹلشمنٹ بیانیے کی وجہ سے ہم پر جھوٹے کیسز بننے اور ہم جیلوں میں گئے ہیں ۔اگر ایک لمحے کیلئے اس کو سچ مان بھی لیا جائے تو کیا اسٹلشمنٹ نے مسلم لیگ(ن) کو مہنگائی کیخلاف احتجاج کرنے سے بھی روک دیا تھا۔ساڑھے تین سالوں میں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میاں شہبازشریف ،اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز اور مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کتنے مہنگائی کیخلاف احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی؟جس کا جواب ہے صفر۔

قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں بامشکل مسلم لیگ(ن)نے بجٹ اجلاس کے علاوہ احتجاج کیا ہو ۔مجھے تو فی الحال یاد نہیں اگر آپ کو یاد ہو تو میری رہنمائی کرسکتے ہیں۔مسلم لیگ(ن) قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں فرینڈلی اپوزیشن کا رول ادا کررہی ہے۔لیکن موجودہ حالات و واقعات یہی بتارہے ہیں مسلم لیگ(ن) اسٹبلشمنٹ مخالفت بیانیے سے باہر نکل آئی ہے اور نئے انتخابات کیلئے ساز گار ماحول فراہم کرنے کی کوششوں میں لگی ہے تاکہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی طرح انکو بھی آزادانہ طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :