صبر کارڈ

منگل 26 اکتوبر 2021

Saif Awan

سیف اعوان

میں نے اگست کے مہینے میں اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ آنے والے سات ماہ چٹ پٹی خبروں والے ہوں گے۔یہ چٹ پٹی خبریں اب اتنی تیزی کے ساتھ سامنے آرہی ہیں کہ ان میں لہسن ،ٹماٹر اور مصالحہ کم جبکہ مرچیں زیادہ شامل ہوگئی ہیں ۔حساب کتاب سے شروع ہونے والی خبریں اب بلوچستان سے گھوم پھر کر دوبارہ اسلام آباد کے گردنواح میں پہنچ گئی ہیں ۔

حساب کتاب نے وٹس ایپ کالز،میسجزاورویڈیوزکو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔پاکستان کی سیاست میں یہ پہلی بار ہورہا ہے سیاسی معاملات کی بجائے غیر سیاسی موضوعات زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں ۔سوشل میڈیا ایپس ٹک ٹاک،ٹویٹر،انسٹاگرام ،وٹس ایپ اور فیس بک پر صرف جادوئی کہانیاں زیر بحث ہیں ۔میں نے اپنی تیرا سالہ صحافتی زندگی میں پہلے کبھی ایسی پوسٹیں اور ویڈیوز نہیں جو آج کل دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔

(جاری ہے)

افسوس یہ ذاتیات کی سیاست کاکلچر بھی عمران خان کا اپنا ہی ایجاد کردہ ہے۔میں ذاتیات کی سیاست کا شدید ترین ناقد ہوں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے یہ ذاتیات اب سیاست سے نکل کر صحافت میں داخل ہو گئیں ہیں ۔ایک طرف پوری حکومتی مشنری کھڑی ہے اور دوسری طرف اکیلی عاصمہ شیرازی کھڑی ہیں ۔کیا پاکستان کی سیاست پر پہلے کبھی ایسا وقت آیا یقینا ہرگز نہیں۔


کوئی سبزی مہنگی ہونے پر شو مچارہا ،کوئی گھی،مرغی ،دالیں اور پیٹرول مہنگا ہونے پر شور مچارہا ہے تو کوئی بجلی کی قیمتیں بڑھنے پر شور مچارہا ہے لیکن عمران خان اور انکے چند ایک وزیر ان سب چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کے فوائد بتارہے ہیں ۔ان سب چیزوں کے فائدے بتانے والے چند ایک وزیر ہیں ۔جبکہ جہنوں نے دوبارہ عوام کے درمیان جانا ہے وہ ٹی وی ٹاک شوز اور نجی محفلوں میں بھی مہنگائی کو حکومتی کی معاشی ٹیم کی ناکامی قراردے رہے ہیں۔

مہنگائی کو ڈیفنڈ کرنے والوں میں عمران خان سرفہرست ہیں ان کے بعد شیخ رشید،فواد چوہدری،حماد اظہر،اسد عمر اور شہباز گل ہیں جبکہ نجی محفلوں میں حکومت کی معاشی ٹیم پر برسنے والوں میں پرویز خٹک،شفقت محمود،میجرصادق،عامر لیاقت،طارق بشیر چیمہ،فروغ نسیم،سید فخرامام،محبوب سلطان،میاں محمد سومرو اور مونس الٰہی شامل ہیں۔شیخ رشید،فواد چوہدری،حماد اظہر اور اسد عمر یہ وہ لوگ ہیں جو عوام سے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں ۔

لیکن یہ باعث حیرت ہے کہ یہ چاروں وزراء اپنے حلقوں میں جانے سے کیوں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔حماد اظہر کے حلقے سے میرے کئی دوست ہیں ان سب کی زبان پر ایک لفظ ہوتا ہے کہ میاں اظہر کے بیٹے کی شکل ہم نے صرف اس دن دیکھی تھی جب وہ ہم سے ووٹ مانگنے آئے تھے اس کے بعد ہم نے ان کو حلقے میں نہیں دیکھا۔باقی تینوں وزراء کی صورتحال بھی چھ مختلف نہیں ہے۔


آج عمران خان اور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر ڈالر اوپر جانے کے فائدے کچھ اسطرح بتارہے ہیں جیسے پاکستان میں روپیہ نہیں ڈالر چل رہا ہے۔ڈالر 105کا تھا اسحاق ڈار چور تھا اور مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول کررہا تھا ۔آج ڈالر 174روپے کا ہے لیکن عمران خان ایماندار ہے اور ڈالر کو پوری ایمانداری سے اوپر جانے دے رہا ہے۔اسحاق ڈار نے جن حالات میں وزارت خزانہ کا چارج سنبھالا وہ کسی سے ڈکا چھپا نہیں ۔

آصف زرداری نے جسطرح معیشت کا حشر کیا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔دھڑا دھڑ قرضے ،سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں اورسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ آصف زرداری کے تین پسندیدہ کام رہے ہیں ۔موجودہ حکومت کے قومی اسمبلی میں پیش کردہ ریکارڈ کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے پانچ سالوں میں دس ارب ڈالر کے قرضے لیے۔اگر یہ بات درست مان بھی لیں تو مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے دس ارب ڈالر کے قرضے لے کر پاکستانیوں کو ہزاروں کلو میٹر کی سڑکیں،ایئر پورٹس،بجلی کے منصوبے،ہسپتال ،یونیورسٹیاں ،دانش سکولز،میٹرو بسیں،اورنج ٹرین،لیب ٹاپ،نوجوانوں کو قرضے،کسانوں کو 150ارب کا پیکج،سستی گاڑیاں اور لاتعداد منصوبے دیے۔

عمران خان کی حکومت نے ساڑھے تین سالوں میں 14ارب ڈالر سے زائد کے قرضے لیے لیکن بدلے میں پاکستانیوں کو لنگر کارڈ،پناہ گاہیں کارڈ،ہیلتھ کارڈ ،کساں کارڈ اور سب سے بڑھ کر صبر کارڈ تقسیم کیے۔ساڑھے تین سال بعد بھی عمران خان پاکستانیوں میں صبر کارڈ تقسیم کرنے میں مصروف ہیں ۔اتنے صبر کارڈ لینے کے باوجود بھی پاکستانیوں کا صبر جواب دے چکا ہے۔اگر عمران خان نے صبر کارڈ کی تقسیم کا سلسلہ ایسے ہی جاری رکھا تو مجھے امید ہے کہ پاکستانی 2023کے الیکشن میں ووٹ دینے کی بجائے یہ تمام صبر کارڈ عمران خان کو سود سمیت واپس کردیں ۔کیونکہ صبر کی بھی کوئی انتہا تو ہوتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :