نعرہ مستانہ

جمعرات 6 مئی 2021

Saif Ullah Shakir

سیف اللّہ شاکر

اللہ تعالیٰ نے باقی آسمانی صحیفوں اور کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری ان کے ماننے والوں کو دی جس میں بہت ساری تبدیلیاں کردی گئیں_ لیکن آخری کتاب قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی_ لیکن جب مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے تو پھر اس میں کچھ تھوڑے مسائل پیدا ہوئے_ کیوں کہ عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ساری دنیا کی زبانوں میں نمایاں مقام رکھتی ہے_ پچھلے کچھ عرصے سے سورۃ کہف کے ایک لفظ 'وَلْیَطَلَتّفْ' جو کہ قرآن پاک کا بالکل درمیان ہے، اور جس کا مطلب "نرمی سے بات کرنا ہے"_ اس کے علاوہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کو دعوتِ حق دینے کا حکم دیا تب بھی ساتھ یہی فرمایا کہ" بات ذرا نرمی سے کرنا کہ شاید وہ مان جائے"_ اس سے یہ تو واضح ہوگیا کہ دعوتِ حق دیتے ہوئے  ہمیں نرمی اختیار کرنی چاہیے_ اور علماء فرماتے ہیں" دعوتِ حق دیتے ہوئے ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سامنے والا فرعون سے بڑا کافر اور ہم حضرتِ موسیٰ علیہ السلام سے بڑے مسلمان نہیں"_ لیکن چند لوگوں نے کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر اس لفظ کی تشریح اور تبصرہ اپنے اپنے انداز میں کیا اسلام تو نرمی کا درس دیتا ہے اور یہ لفظ قرآن کا خلاصہ ہے_ بیشک خاتم النبیین حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے جس جس کو بھی دعوتِ حق دی یا دعوتی خط بھی لکھے تو بھی انتہائی نرم لہجے میں لکھے، اور یہ نرمی ہی تھی کہ تاجدارِ کونین (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کو طائف کے بازاروں میں پتھر مارے گئے، آپ کی کمر مبارک پر اونٹ کی اوجڑی پھینکی گئ، آپ کے گلے میں چادر ڈال کر کھینچا گیا یہی نہیں 3 سال تک آپ کو شعب ابی طالب میں محسور کردیا گیا کھانے پینے کی اشیاء ہر طرح کا بائیکاٹ کیا گیا_ لیکن لاکھوں کروڑوں درود سلام تاجدارِ کونین پر کسی کو بددعا نہیں دی صرف دعوتِ حق کے دوران والا دورانیہ تھا_ پھر ایک وقت آیا جب قریشِ مکہ نے آنحضرت صل اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ برابری کی بنیاد پر صلح حدیبیہ کی صورت معاہدہ کیا اور قربان جاؤں وہاں امن کے عالمگیر علمبردار نے ان کی چھوٹی چھوٹی شرائط بھی مانی انہوں نے کہا محمد کے آگے سے رسول اللہ ہٹا دیں نرمی کا عالم دیکھیے آپ نے مان لیا، صرف پوری بسم اللہ الرحمن الرحیم کی بجائے صرف 'بِاسْمک اللھم' لکھنے کا کہا گیا وہ بھی مان لیا کیوں کہ امن قائم کرنا تھا اور امن کے لیے نرمی فرض ہے_ یہاں چند نام نہاد آزادانہ سوچ والے احباب ہر معاملے میں نرمی کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں_ لیکن نرمی صرف دعوتِ حق اور امن کے لیے لازم ہے_ اس کے ساتھ ساتھ غیرت بھی عالی شان انسانی خوبی ہے اور تاجدارِ کونین صل اللہ علیہ والہ وسلم ہر لحاظ سے کامل انسان ہیں_ یہاں یہ عرض کرنا چاہتا کہ چند معاملات میں نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی_ جب امن کی بحالی کی ساری کوششیں کفار کے سامنے ختم ہو جائیں اور وہ اسلام کے خلاف ہمہ وقت سازشوں اور لڑائیوں کی تیاریوں میں لگ جائیں تو پھر غزہ بدر ہوتا ہے اور نرمی کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے، جب مشرکین مکہ اپنے سرداروں کے بدلے کی آگ میں جل رہے ہوں اور نئ جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں تب غزوائے احد ہوتا ہے اور نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، جب یہودیوں کی سازشیں برداشت سے باہر ہو جائیں اور ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہو تو نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، جب قریشِ مکہ معاہدہ توڑ کر مسلمانوں کے اتحادی قبیلے پر حملہ کردے تو مکہ کسی کا خون بہائے بغیر فتح ہوجاتا ہے لیکن گستاخ رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے تب بھی نرمی کی گنجائش نہیں ہوتی_ جب حضور نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد چند سرکش قبائل زکوٰۃ دینے سے انکار کردیں تو نرمی کی گنجائش نہیں ہوتی، جب کوئی کذاب نبوت کا دعویٰ کرے اور اس فتنے کو ختم کرنے کے لیے بھی نرمی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی_ جنگ موتہ کے شہداء کا بدلا لینا ہو تو بھی نرمی کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے_اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہلکا سا اختلاف پاکر رومی بادشاہ دونوں اصحاب کو خطوط لکھ دے اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں مدد کرنے کی خواہش کا اظہار کرے تو تب بھی نرمی کی گنجائش ختم ہوجاتی جس کے نتیجے میں دونوں اصحاب نے اس کو سخت نتائج کی دھمکی دی اور فرمایا کہ "او رومی کتے ہم دونوں بھائی ہیں اور ہمارے درمیان معمولی اختلاف ہے جلد ختم ہو جائے گا تو نے اگر جرات بھی کی تو تیرا حشر دنیا دیکھے گی" _ ظلم کے اندھیرے ختم کرنے اور ایک مسلمان بچی کی پکار پر محمد بن قاسم سندھ میں آئے تب بھی نرمی کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے_ عافیہ صدیقی سمیت بیسیوں بے گناہ مسلمان گوانتاموبے کی جیلوں میں بدترین زندگی کے دن پورے کررہے ہوں تو نرمی کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے_ جب پوری دنیا میں مسلمانوں کو بے دردی سے ذبح کیا جارہا ہو تو نرمی کی گنجائش ختم ہو جاتے ہے_اور نرمی کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے اگر آج یورپی یونین پاکستان کو توہین رسالت کے قانون کو تبدیل کرنے کے لیے کہے تب بھی نرمی کی گنجائش نہیں رہتی_ اگرچہ وزیراعظم نے کہہ دیا کہ اس قانون پر کوئی سمجھوتہ نہیں لیکن اُنہیں باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہم اگرچہ اعمال میں بہت کمزور اور نحیف ہیں لیکن ہمارے پاس ایک یہی تو سرمایہ حیات ہے، اس کے بارے میں اگر تم آئندہ کوئی بات کی تو ہم تمہارا انجام بھی دنیا دیکھے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :