خودمختاری ہزار نعمت

جمعہ 30 اپریل 2021

Saif Ullah Shakir

سیف اللّہ شاکر

امام انبیاء تاجدارِ ختم نبوت فخرِ کون ومکاں احمدِ مجتبٰی محمد مصطفیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود کو ہو لحاظ، ہر حثییت سے بطورِ ایک سپہ سالار، بطورِ حاکم، بطورِاستاد، بطورِایڈمنسٹرییٹر اس وقت کی مہذب اور خودمختار دنیا میں ایک خود مختار اور ہر لحاظ سے مکمل شخصیت اور ریاست کو ہر لحاظ سے مکمل ریاست کے طور پر منوایا_ لیکن اس کے پیچھے ایک بہت لمبی جدوجہد، بہت ساری مشکلات اور شعب ابی طالب کی صعوبتیں تھیں۔

آپ انسانیت کے لیے سرچشمہ ہدایت، سراپا رحمت بلکہ رحمت للعالمین بن کر تشریف لائے۔ آپ محسنِ انسانیت بھی ہیں۔ کیوں کہ آپ کے آنے سے ہی تو انسانیت کو ہر طرح کی غلامی سے نجات ملی۔  رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کی گستاخیاں اس دور میں بھی کی جاتی رہیں اور اس کا ساتھ ساتھ ہی ان کا سدِباب بھی ہوتا رہا۔

(جاری ہے)

المختصر آج کے دور میں اگر کوئی آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو بلا  تفریق ہر کسی کو اس کا دفاع کرنا چاہیے۔

لیکن افسوس کہ چند دن پہلے وطن عزیز میں پولیس اور تحریک لبیک کے کارکنان میں جو جھڑپیں  ہوئیں اور وطن عزیز میں خون کی ہولی کھیلی گئی، انتہائی افسوسناک اور سوگوار صورتحال تھی ۔سوشل میڈیا اور وٹس ایپ گروپس میں وڈیوز اور تصاویر گردش کرتی رہیں۔کہیں اگر کوئی اکیلا پولیس والا عوامی شکنجے میں آگیا تو اس کی درگت بنادی گئ اور دوسری طرف پولیس کا بھی یہی حال تھا مارنے کا یہ طریقہ اپنایا ہوا تھا جیسے بھارتی فوجی کشمیریوں کو مارتے ہیں۔

پولیس کی جانب سے 2 اہلکاروں کی ہلاکت اور 4 گاڑیوں کو بھی جلائے جانے کی خبریں گردش کرتی رہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ قابلِ مذمت اور انتہائی دہشت اور وہشت ناک حکومت کی جانب سے تحریک لبیک کے کارکنان پر کھلے عام فائرنگ کی گئی اور متعدد اہلکاروں کو ابدی نیند سلادیا گیا اور بے شمار کو شدید زخمی کر دیا گیا۔ اس کے باوجود مقدمات بھی انہیں پر بنے جنہوں نے اپنے ہی ملک میں اپنی ہی ریاست سےگولیاں گھائیں۔

جوکہ کسی بھی مثالی مہذب اور آزاد سیاسی اور خود مختار ریاست کے شایان نہیں۔سوشل میڈیا صارفین اور  سیاسی بمقابلہ مذہبی بلکہ مذہبی بمقابلہ لبرل کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا لوگ بھی نظریاتی طور پر دو گروپوں میں تقسیم نظر آئے ۔ ایک تحریک لبیک کے حق میں دوسرا پولیس کے حق میں، گرما گرم بحث چلتی رہی۔ پولیس کے حامیوں کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک والوں نےپولیس کے ساتھ ساتھ راہگیروں اور مسافروں کی بھی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی جبکہ تحریکِ لبیک کے حامیوں کا مؤقف تھا کہ اس طرح کی صورتحال میں بہت سارے شرپسند عناصر بھی موقع پا کر مظاہرین میں شامل ہوکر حالات کو خراب کرنے اور تنظیم کو بدنام کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور مختلف حکومتوں نے ایسے بندے رکھے ہوتے ہیں تاکہ جواز بنا کر تنظیم پر پابندی عائد کر دی جائے۔

اور یہی کچھ ہوا۔ اس وجہ سے بہت ساری گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں_ تحریک کے سربراہ سعد رضوی صاحب کو تو  پہلے ہی حراست میں لیا جاچکا تھا_اس ساری صورتحال میں مین سٹریم میڈیا بالکل جانبداری سے کام لیتا رہا۔اسے یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ دونوں حلقے ہمارے اپنے ہی ہیں۔  حکومت افہام وتفہیم سے مسئلے پر قابو پا سکتی تھی_ اور کہتے ہیں ریاست ماں ہوتی ہے۔

تو ماں کے لیے تو سب بچے ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ہر مسئلے کا حل بندوق گولی سے نہیں نکلتا۔ حکومت کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ تحریک لبیک کے کارکنان بھی تو اسی ملک کے باسی ہیں ۔آخر ان کا مطالبہ اتنا بڑا تو نہیں جس سے خدانخواستہ ہمارا ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ اور رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم تو سارے جہانوں کے لیے ہیں۔ کیوں شہادت کو اسقدر سستا کردیا گیا کہ مسلمان مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو کے شہادت کا دعویدار ہے؟ مرنے والا بھی مسلمان اور مارنے والا بھی ۔

کیا ہمارا ملک ایک آزاد اور خودمختار ملک نہیں؟
کیا ہمارے اندر سے غیرت ایمانی بالکل ختم ہوگئی ہے؟ کیوں ہم رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس کی خاطر کسی ایسے ملک سے تعلقات ختم نہیں کرسکتے جہاں آئے دن کوئی نہ کوئی نیا اسلام مخالف قانون آجاتا ہے_ حکومت کیوں اپنے پاؤں پر وزن ڈال کر کھڑی نہیں ہوتی؟ باقی تو ساری دنیا کے دباؤ قبول، یعنی امریکی دباؤ میں آکر وطن کی بہن بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ان کے حوالے کردینا، ریمنڈ ڈیوس کو باعزت بھجوانا، ابھی نندن کو فوری رہا کرنا_ لیکن افسوس ہم بحیثیتِ غریب اور کمزور معیشت کے حامل اور ڈرپوک کنزیومر ملک بن کر تو سوچتے ہیں لیکن بحیثیتِ غیرت مند مسلمان قوم بن کر نہیں سوچتے _ اور چلے ہیں ریاست مدینہ بنانے _ حکومت کے سامنے حل طلب بے شمار قومی مسائل ہیں، حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم مسلمان ہیں اور اس طرح فرانس کے سفیر کی ملک بدری بھی قومی مسئلہ ہے_ اور آفرین ہے اسمبلی والوں پر ایک جماعت نے تو سرے سے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری والی قرارداد والے اجلاس میں شرکت ہی نہیں کی_دوسری بڑی اور اپوزیشن کی جماعت بھی بہانے کرنے لگی اور عجیب وغریب سوالات اٹھادیے_ دوسری جانب تحریک لبیک کو بھی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی ہوگی_ آخر کار مسئلہ تو حل پھر بھی نہیں ہوا نہ سفیر ملک بدر ہوا، نہ تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی اور دیگر کئی کارکنان کو رہا کیا گیا_ اور اوپر سے وزیر اعظم صاحب اس بات پر بضد ہیں کہ ہم سارے" اسلامی ممالک ملکر اس کے بارے میں آواز اٹھائیں گے" اسلامی ممالک کا اکٹھا ہونا تو تقریباً ناممکن ہے_ لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہمارے دلوں میں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت وناموس اتنی بھی نہیں کہ ہم اس ملک کے سفیر کو ہی ملک بدر کر دیں جہاں سرکاری سطح پر گستاخی کی گئ ہے؟ اور بدبختی کا عالم ہے کہ ہم نے ابھی تک سرکاری سطح پر اس کی مذمت تک نہیں کی_ حکومت اور سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر کل قیامت کے دن ہمیں حضور نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت سے محروم کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :