انسانی حقوق یا مسلمانوں کا استحصال

منگل 2 جون 2020

Saif Ullah Shakir

سیف اللّہ شاکر

اپنے ایک کالم میں میں نے انڈین اداکاروں رشی کپور اور عرفان خان کے بارے میں لکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل کا ذکر کیا_ جسے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنائے رکھا_ دوسری طرف میں نے کشمیری مسلمانوں کی ہلاکتوں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا جو وہ 72 سالوں سے برداشت کر رہے رہے ہیں اشارہ کیا_ بحیثیتِ مجموعی پوری دنیا میں مظلوم مسلمانوں کے بارے میں بھی قلیل ذکر کیا جس میں فلسطین، شام عراق بوسنیا، چیچنیا، برما، یمن شامل تھے، لیکن زور کشمیر کے مسلمانوں پر دیا_ فرض کریں یہ سارے مسلمان نہ ہوتے تو ان پر اس قدر ظلم ہوتا؟ جواب ہے نہیں کیوں کہ وجہ صرف اسلام ہے. بہت سارے مفادات کے علاوہ ان کا جرم مسلمان بھی ہے_ اُس کالم میں اویغور مسلمانوں جو چائینہ کے مشرقی صوبے سنکیانگ میں آباد ہیں کا ذکر نہیں کیا گیا تو، میرے ایک دوست نے بہت سارے سوالات اٹھا دئیے _ کیا صرف ہندوستان میں ہی مسلمان مظلوم ہیں؟ کیا ہم صرف انہیں کے بارے میں لکھتے یا بولتے رہیں گے؟ ہم کیوں ہندوستان پاکستان کے امن کے لیے نہیں لکھتے یا بولتے؟ چائینہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کیوں آواز نہیں اٹھاتے؟ سوالات واقعی بہت اہم ہیں، اور جواب طلب ہیں_ جن کی بہت ساری وجوہات بھی ہیں لیکن ان پہ پھر بات کریں گے_
 اگر بات کریں اویغور مسلمانوں کی تو یہ چائینہ کے مشرقی علاقے صوبہ سنکیانگ میں آباد ہیں_ ان کی آبادی ایک کروڑ دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے، (اور ارتغرل غازی کا تعلق بھی یہیں سے تھا) یہ کسی اور کالم میں ذکر کریں گے _ یہ مسلمان تُرک النسل ہیں_ چائینہ کا مشہور شہر کاشغر بھی یہیں واقع ہے_ اس کی سرحدیں پاکستان، ہندوستان،افغانستان، اور منگولیا سے ملتی ہیں_ سی پیک پاک چائینہ اکنامک راہداری بھی یہیں آکر ملتی ہے_ یہ لوگ خود کو نسلی اور ثقافتی طور پر وسطی ایشیائی ممالک کے قریب تر دیکھتے ہیں_ یہاں طویل عرصے سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے_ اسی وجہ سے ان پر القاعدہ تحریک طالبان پاکستان اور ترک اسلامک تنظیم کے ساتھ تعلقات کے الزامات ہیں، جن کے کبھی کوئی شواہد نہیں ملے _ ان کا مؤقف ہے کہ یہ علاقہ ترکستان کا تھا اور یہاں چائینہ نے 1949 میں قبضہ کر لیا تھا_ یہ اپنی خودمختار ریاست چاہتے ہیں، جہاں یہ اپنی مکمّل مذہبی اور ثقافتی آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکیں، لیکن یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ مسلمان بہت ساری مشکلات اور مصائب سے دوچار ہیں _ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق انہیں شدید نگرانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے_ انہیں اپنے بائیومیٹرک اور ڈی این اے کے نمونے دینے پڑتے ہیں_ اور مبینہ طور پر جن کے رشتے دار انڈونیشیا قذاقستان میں ہیں انہیں حراست میں رکھا جاتا ہے_
 ایک عمر نامی آدمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ''دورانِ حراست ہمیں سونے نہیں دیتے تھے ان کے پاس موٹے موٹے ڈنڈے تھے، وہ شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے تھے ناخن کھینچنے کے لیے ان کے پاس پلاس تھے، وہاں اور بھی بہت سارے لوگوں کی چیخیں سنائی دیتی تھیں''_ یہی نہیں بلکہ ان مسلمانوں کے بچوں کو ان کے گھروں سے دور لے جا کر بورڈنگ سکولز میں رکھا جاتا ہے جہاں چائنیز زبان کے علاوہ کسی بھی علاقائی زبان کے بولنے پر پابندی ہے، ان سینٹرز کو انہوں نے ری ایجوکیشن کا نام دیا ہوا ہے _وہاں ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے جو کہ ان کو مذہب ثقافت اور تہذیب سے دور رکھنے کی ایک منظم سازش ہے.UN.کی رپورٹ کے مطابق اب تک دس لاکھ بچوں کو زبردستی وہاں بھرتی کیا گیا ہے _وہاں کے حکومتی پروپیگنڈہ کے نمائندے کے مطابق ان بورڈنگ سکولز کی بہت اہمیت ہے ''ان سکولز کی مدد سے معاشرے میں امن و استحکام لایا جاسکتا ہے'' _ اور مزید یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے 'نسلی ہم آہنگی'پیدا کی جائے گی_ ایک عورت نے اپنے دو بچوں کی تصویریں اٹھائے ہوئے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میرے بچے کہاں ہیں، اور ان کی پرورش کون کر رہا ہے_ ایک دوسری عورت نے سوال کیا کہ ساری دنیا یہ سب جانتے ہوئے بھی کیوں خاموش ہے؟ _ یہی نہیں وہاں اگر کسی نے بھی اپنے نومولود بچے کا نام 'محمد' رکھا تو اسے جیل جانا پڑے گا _ 
ایک عرصے سے ان مسلمانوں پر حج پر پابندی ہے_ وہاں لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی ہے، مساجد کو مسمار کیا گیا ہے_ ان پر نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور عبادات پر پابندی ہے_ انہیں زبردستی شراب پلائی جاتی ہے اور سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے_ وہاں قبضہ کرنا ایک الگ بحث، لیکن یہ سارے اقدامات انسانی حقوق پر شب خون کے مترادف نہیں؟ اگر اویغور مسلمان مسلمان نہ ہوتے تو کیا تب بھی ان کے ساتھ یہی سلوک ہوتا؟ تاریخِ عالم گواہ ہے انسانیت کو جب بھی جہاں کہیں بھی ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا تو ہر دور میں مسلمانوں نے ہی اس ظلم کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی، اور انسانیت کو نجات دلائی، وہ محمد بن قاسم کی صورت ہو، طارق بن زیاد کی صورت ہو یا پھر ارطغرل غازی کی صورت _ اب جب کہ کوئی ایسی شخصیت نہیں آتی تب تک ہماری ذمہ داری ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہمارے مسلمان بہن بھائی مظلوم ہیں معاشی مفادات کی فکر کیے بغیر ان کی آواز بنا جائے اور اقوام عالم کے سامنے حقائق رکھے جائیں، تاکہ ساری دنیا کا میڈیا جو مسلمانوں کو دہشت گرد اور بنیاد پرست ثابت کرنے کی کوشش میں ہے، اسے بھی پتہ چلے_ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہمیشہ کی طرح میری وہی رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے_اور اس کی پکڑ بڑی سخت ہے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :