"حکومتی سرپرستی کے اصل حقدار"

منگل 30 جون 2020

Saif Ullah Shakir

سیف اللّہ شاکر

سوشل میڈیا پر جاری پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی بحث  کے علاوہ بھی ایک بہت گرما گرم بحث جاری ہے_ وہ ہے اسلام آباد میں 'حکومتی سرپرستی میں مندر کا سنگ بنیاد' _ یہاں قائد اعظم کے دو  بظاہر متضاد بیانات کا ذکر کرنا ضروری ہے_ ایک تقریر میں قائد نے فرمایا تھا کہ
"یہاں کوئی ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور کوئی مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا اور مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا"_ دوسری تقریر میں کہا تھا کہ
"ہم نے پاکستان کا ٹکڑا اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لیے حاصل کیا ہے" _ یہ بحث اگرچہ مختلف شکلوں میں چلتی رہی ہے کبھی آزادی نسواں کی صورت   تو کبھی کسی روپ میں_ یہ بحث ایک دفعہ پھر تازہ ہوگئی ہے_ سوشل میڈیا والے دو گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں_ ایک لبرل ازم والے دوسرے اسلامی نقطہ نظر والے_ اسلامی نقطہ نظر والے کہتے ہیں اسلام سے بڑا لبرل، سوشلسٹ، اور سیکولر مذہب دنیا میں نہیں ہے_ اس کی ہزاروں مثالیں اسلامی تاریخ سے ملتی ہیں_ سب سے بڑی مثال ریاست مدینہ کے قیام کی ہے_ اس کے علاوہ صحابہ کرام کے ادوار تابعین کے ادوار، پھر اندلس میں عیسائیوں یہودیوں کا مسلمانوں کے ساتھ یکساں حیثیت کے ساتھ رہنا،   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے دور میں جبکہ وہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے تھے_ محمد بن قاسم نے سندھ میں آکر جو رواداری کی مثال قائم کی وہ دنیا کے سامنے ہے_ ہندوؤں کی زمینوں جائدادوں کو انہیں کی ملکیت میں رہنے دیا_ جبکہ دوسری طرف لبرل گروپ کے لوگ اقلیتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے کی بات کرتے ہیں تو درجہ بالا مثالیں کافی ہیں_ اسلامی نقطہ نظر والے یہاں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل  کرتے ہیں جو یقیناً ہم سے بہتر اسلام سمجھتے ہیں_ اس پر تمام فقہائے اسلام کا اجماع ہے(متفق ہیں) _ "جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمیوں کا یہ حق نہیں کہ نئی عبادت گاہیں قائم کریں اور کناس تعمیر کریں یا ناقوس بجائیں شرابیں پیئں" _ بحوالہ( ابن ابی شیعبہ المصنف 467) _ لبرل والے اس حق کی بات کرتے ہیں کہ اس ریاست کے شہری ہونے کے ناطے ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مسلمانوں کا_ یہاں چند حقائق  سامنے لانا ضروری ہیں _ اس وقت متروکہ وقف املاک کا ادارہ پورے پاکستان میں 1130 مندروں اور گوردواروں کا نگہبان ہے۔

(جاری ہے)

ان میں سے صرف 30 مندر اور گوردوارے ایسے ہیں جو آباد ہیں۔ باقی ویران ہیں۔ پاکستان میں ہندو 1.85 فیصد ہیں اور ان میں سے 95 فیصد اندرون سندھ میں آباد ہیں_ اسلام آباد میں 0.025 فیصد جن کی کل تعداد 178 ہے_ اور مبینہ طور پر 20000 مربع فٹ زمین اور 100 ارب روپیہ مختص کیا گیا ہے_ جبکہ لال مسجد میں 4 ہزار بچیوں سے پہلے والا بھی پلاٹ واپس لے لیا گیا ہے_ جب بھی وہ بچیاں اس کا مطالبہ کرتی ہیں تو پولیس اور رینجرز کو بلاکر ان کا محاصرہ کر لیا جاتا ہے_ اس بارے میں اسلامی نقطہ نظر والے سوشل میڈیا صارف یہ کہتے ہیں 1130 میں سے 30 آباد ہیں جن کی سکیورٹی اور تمام اخراجات حکومت کی ذمہ داری ہے تو حکومت کو چاہیے کہ  جن کی محرومی ختم کرنا چاہتی ہے باقی غیر آباد مندروں میں جگہ دے کر کرسکتی ہے_اسلامی نقطہ نظر والوں کے اور بھی کئی شکوک وشبہات ہیں_ وہ کہتے ہیں اگرچہ ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک کی ہزاروں مثالیں ہیں لیکن غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی تعمیر کا طرزِ عمل نہ نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کا ہے نہ صحابہ کا نہ تابعین کا نہ پیچھے آنے والے سلاطین کا_ بلکہ وہ جب بھی کسی نئی جگہ آباد ہوتے وہاں سب سے پہلے مسجد بناتے_ مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللّہ علیہ والہ وسلم نے یہی کیا_ محمد بن قاسم نے برصغیر میں کئی مساجد تعمیر کیں، سلطنت عثمانیہ کے بہت سارے سلاطین نے اپنے ناموں سے مساجد بنوائیں_ اسلامی نقطہ نظر والے یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ دنیا کے کسی غیر مسلم ریاست کی سرپرستی میں مسجد تعمیر نہیں ہوئی_ جبکہ چائنہ کے علاقے اویغور میں ہندوستان کے کئی علاقوں میں گوتم بدھ کے ماننے والوں  نے اسرائیلیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو کون کون سی اذیت نہیں دیں؟ _ ان تمام علاقوں میں مساجد کو نذرآتش بھی کیا گیا اور مسمار بھی_ اسلامی نقطہ نظر والے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے لال مسجد پر ہونے والی بمباری قرآن کی بے حرمتی طلباء اور اساتذہ کا بھی ذکر کرتے رہے_ اسلامی نقطہ نظر والوں کا خیال ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے ان کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے_ دوسری طرف ساری دنیا کے میڈیا نے اسلام کو دہشت گرد قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا، اس تناظر میں ایک اسلامی ریاست کے دارالحکومت میں ریاستی سرپرستی میں ایک مندر کی تعمیر کسی صورت قابل قبول نہیں_ لبرل سوچ والے یہی کہتے ہیں اس سے دنیا میں امن کا پیغام دیا جائے گا _ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ سے بھلائی کے بدلے برائی ہی ہوئی ہے_ ابھی نندن کو واپس کرنے کے بعد بارڈروں پر سکون ہوگیا؟ ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ بھیجنے  کے بعد امریکہ مطمئن ہوگیا؟ عافیہ صدیقی واپس آگئی؟_ خیر زمینی حقائق یہ ہیں جی ڈی پی 0.4-فیصد، ملک میں آٹا چینی پیٹرول مافیاز سب پہ بھاری پڑ چکی ہیں_ ملک بہت سارے بحرانوں میں ِگھرا ہوا ہے، کرونا کیسسز رکنے میں نہیں آرہے،  غربت بیروزگاری، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، بدعنوانی ڈیم جو اس حکومت کے آنے سے پہلے زندگی موت کا مسئلہ بنا ہوا تھا، حکومتی وزراء ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں، مقتدر حلقوں کو کچھ سوجھ نہیں رہا _  عمران خان جو اکثر مسلم حکمرانوں اور سلاطین کا ذکر کرتے ہیں انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ جب محمود غزنوی کو سومنات کے سب سے بڑے بت کو توڑنے کے بدلے ہیرے جواہرات کی پیشکش کی تھی تو انہوں نے تاریخی جملہ کہا تھا "میں اگر تمہارے کہے پر چلوں گا تو دنیا مجھے بت فروش کے نام سے یاد کرے گی لیکن میں چاہتا ہوں دنیا مجھے بت شکن کے طور پر یاد کرے"۔

آنحضرت صلی اللّہ علیہ والہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کاندھے پہ بٹھا کر کعبے میں سے بت تڑوانا،اور سنتِ ابراہیمی کے مطابق بت شکنی ہر وقت یاد رکھنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :