بدلتے نشے

منگل 23 مارچ 2021

Saif Ullah Shakir

سیف اللّہ شاکر

آج کی اس مادہ پرست معمول کی زندگی میں ہم اکثر اوقات معمولی باتوں کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لاتے اور بہت سارے واقعات کو نظرانداز کردیتے ہیں_ اسی طرح کا ایک واقعہ جسے میں معمولی نوعیت کا نہیں کہوں گا_ اور اس سے جڑی مثالوں اور کڑیوں کو بھی معمولی نہیں کہوں گا_ چند دن پہلے میں آٹے والی چکی پر گندم پسوانے گیا جوکہ تقریباً ایک من یعنی 40 کلو تھی گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود میں گندم کا توڑا کندھوں پہ اٹھا کر لے گیا_ چکی پر جا کر تھوڑی دیر عصمت اللّہ بھائی (چکی والے) سے میں اکثر گندم رکھنے کے بعد گپ شپ اور ان کا حال احوال دریافت کیا کرتا ہوں_ اسی نیّت سے میں کھڑا تھا کہ اچانک وہاں ہمارے گاؤں کی معمر شخصیات میں سے ایک باباجی منشاء رحمانی وہاں نمودار ہوئے جو اپنے کاندھے پر تقریباً اُتنی ہی گندم اٹھائے لارہے تھے جتنی میں لایا تھا_ یہ دیکھ کر میں بہت ہی حیران بھی ہوا اور متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکا_اس سے زیادہ حیران کن بات میرے لیے یہ تھی کہ گندم کی بوری نیچے رکھنے کے بعد بھی ان کے چہرے یا جسم پر کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ اور اُکتاہٹ کے کوئی اثرات نہیں نظر آئے _ ان بابا جی کی عمر تقریباً 80 سال تو ہوگی_ کیوں کہ یہ بزرگ میرے دادا جان کے دوست بھی تھے_ خیر میں نے عصمت بھائی سے پوچھا کہ بابا جی نے اتنا وزن ِاس عمر میں بھی ِاتنی آسانی سے اٹھایا ہوا تھا کہ کسی قسم کی کوئی پریشانی مجھے تو نظر نہیں آئی_ میرا خیال ہے انھوں نے جوانی میں اچھی خوراک کھائی ہوگی، نشے سے خود کو دور رکھا ہوگا یا ان کا یہ معمول کا کام ہوگا_ ویسے میں نے باباجی کو اکثر شام کے اور صبح کے وقت سیر کرتے بھی دیکھا ہے_ عصمت بھائی سے پوچھا آپ کیا کہتے ہیں؟ عصمت بھائی نے جواب دیا آپ کی بات کافی حد تک درست ہے_ لیکن میں یہاں چند باتیں مزید شامل کرنا چاہوں گا_ ایک بات تو یہ ہے کہ یہ رحمانی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کا کام شروع سے ہی وزن اٹھانا ہوتا ہے تو اس لیے بھی انھیں زیادہ مشکل نہیں پیش آئی_ جہاں تک بات ہے نشے کی تو دیکھیے بھائی آج کے دور میں جہاں ہر چیز بدل گئی ہے حالات بدل ہیں، معاملات بدل گئے ہیں ترجیحات بدل گئ ہیں لوگوں کے سوچنے کے طریقے بدل گئے ہیں وہاں نشے بھی بدل گئے ہیں_  میں نے حیرت سے پوچھا نشےکیسے بدل گئے ہیں؟ آج سے تقریباً 15 20 سال پہلے تک نشے اور تھے سگریٹ، چرس، افیم،بھنگ یا پاؤڈر لیکن آج میں سب سے بڑا نشہ موبائیل فون کو سمجھتا ہوں_ اسی طرح نوجوانوں کے کھیل  بھی بدل گئے ہیں_ پہلے والے نوجوان ڈنڈ بیٹھک لگاتے تھے رسہ کشی، زور آزمائی، بازو کو پکڑنے والا کھیل، کبڈی، باڈا اور اس طرح کے بہت سارے کھیل کھیلے جاتے تھے_ الغرض جسمانی سرگرمیاں بہت زیادہ ہوتی تھیں_ لیکن اب اس طرح کے کھیل اور سرگرمیاں کہیں نظر نہیں آتیں _ یہی وجہ ہے کہ آج کے نوجوان کو اگر 30 کلو کی گندم کی بوری خود اٹھانا پڑ جائے تو پہاڑ نظر آتا ہے_ آج بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جو اس طرح کی جسمانی سرگرمیوں سے آج بھی جڑے ہوئے ہیں_ ناصرف موبائیل فونز بلکہ اس میں بلاوجہ کی ایپلیکیشن کا بےجا استعمال ان کی آنکھوں سے بینائی، بالوں سے سیاہی، اعضاء سے قوت ذہن سے حافظہ کی قوت اور اندرونی نظام سے قوتِ مدافعت چھین لیتی ہے_ عصمت بھائی نے کہا میں اس کے استعمال کے خلاف نہیں میں بدلتے حالات کے تقاضے سمجھتا ہوں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر آنے والی نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی کی ایسی کی تیسی کردیتے ہیں_ ہماری تاریخ بھری پڑی ہے پہلوانوں کے کارناموں سے وہ کبڈی ہو، وزن اٹھانے کے مقابلے ہوں یا رسہ کشی ہو_ لیکن ہر چیز کو استعمال کرنے کا طریقہ ہوتا ہے_ یہ بات کرتے عصمت بھائی وہاں سے چل دیے لیکن میں وہاں کھڑا سوچتا رہا کہ باتیں تو بالکل 100 فیصد سچ ہیں موبائیل کے کثرت استعمال سے بہت سارے خطرناک واقعات بھی سامنے آئے ہیں_ تقریباً ڈیڑھ مہینہ پہلے ایک ٹک ٹاک بلاگر لڑکی اور اس کے دوست کو کراچی میں قتل کر دیا گیا، اور ڈیڑھ سال پہلے ایک ٹک ٹاک بلاگر کے بھائی اور والد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، دریا نیلم میں دو بھائی سیلفی لیتے ہوئے گر گئے،آئے دن کوئی نہ کوئی نیا سکینڈل سامنے آیا ہوتا ہے_ اور بالخصوص یہ ہمارے رویوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے_ حتیٰ کہ روتے بچوں تک کو چپ کرانے کا کام بھی بخوبی انجام دیتا ہے_ موبائیل کے ہاتھ میں ہوتے ہوئے پاس بیٹھے قریبی دوست رشتے دار یا والدین تک کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ صرف ہوں' یا ہا‌ں پہ اکتفا  کیا جاتا ہے ہے _ میں یہ سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں ہم سے کیا غلطی سرزد ہوگئی ہے کہ صرف نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ ہر کسی کا موبائیل پر سر جھکا ہوا ہے_ کچھ کرنے کو نہ ہو تو فون کی گیلری سے پرانی تصویریں ہی دیکھتے رہیں گے_ پہننے کو اچھا لباس ہو نہ ہو کھانے کو اچھی خوراک ہو نہ ہو رہنے کو اپنا مکان ہو نہ ہو لیکن ٹچ موبائیل لازمی ہونا چاہیے، یعنی فیشن بن گیا ہوا ہے اور بات یہاں ختم نہیں اچھا موبائیل نہ ہونے پر بھی ہم احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں _ ناصرف یہ بلکہ ادھار لے کر یا قسطوں پر بھی موبائیل لیے جاتے ہیں_ اس کے بے جا استعمال سے چند اور مسائل بڑھتے جا رہے ہیں_ جن میں شدت پسندی، انتہاپسندی، عدم برداشت اور اس کی ساتھ بہت سارے روحانی و جسمانی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں_ المختصر آج ہم ترقی کی بجائے تنزلی، صحت کی بجائے بیماری، استحکام کی بجائے انحطاط اور آگے کی بجائے پیچھے جارہے ہیں _ ہمیں بروقت اس بارے میں سوچنا ہوگا کیوں کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا_ اگر بروقت اس بارے میں نہ سوچا تو مزید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :