"میرا دم گھٹ رہا ہے"

پیر 8 جون 2020

Saif Ullah Shakir

سیف اللّہ شاکر

دنیا کے لیے سراپا ہیبت، دنیا جس سے ڈرتی ہے، دنیا کی نظر میں سپرپاور، جس کا نام ہی غریب ممالک پہ لرزہ طاری کردیتا ہے، اقوام متحدہ کا مستقل ممبر اور ویٹو پاور رکھنے والا، عالمی معیشت پہ راج کرنے والا، 'وار آن ٹیرر کا بانی' خود کو دنیا میں ہر لحاظ سے چمپئین سمجھنے والا، جمہوریت کا ٹھیکیدار، امن کا نام نہاد پاسدار، آسکر بانٹنے والا، جس کے پالے ہوئے بھی غرور سے چور اور بدمست ہوکر سرِعام ُمکا لہراتے ہوئے کہتے تھے "آخری ُمکا میرا ہوگا''، انسانیت کے نام سے نابلد، مادہ پرست، وسائل کا بھوکا، انسانیت کا قاتل، عقل سے عاری، اپنوں کا حامی نا غیروں کا خیر خواہ، جس کو کہتے ہیں 'امریکہ'_ اس سب کے باوجود بھی نیک نامی ہی کا خواہاں_ اپنی غلط اور ناکارہ پالیسیوں کی ذمہ دار کبھی چین کو تو کبھی روس یا پھر کبھی شمالی کوریا کو ٹھراتاہے_ لیکن آج اس کی ساری شان و شوکت سارا جاہ جلال، سارا رعب و دبدبہ محض ایک چھوٹے سے واقعے کی وجہ سے کھل کر سامنے آگیا_ 25 مئی کی شام ہونے والا واقعہ محض ایک معمولی نوعیت کا واقعہ تھا، لیکن کون جانتا تھا کہ یہ واقعہ امریکہ بہادر کو اتنا مہنگا پڑے گا_ جہاں پوری دنیا کرونا کا رونا رو رہی ہے وہاں یہ ایک نیا 'کٹا کھلنے' کے مترادف ثابت ہوگا_ اس واقعے نے لوگوں کو ظلم کے خلاف متحد کر دیا ہے کیا گورا کیا کالا سارے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں_ کہتے ہیں 'ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے'_ ظلم اور جہالت کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے ایک چھوٹی سی کرن کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ واقعہ ثابت ہو سکتا ہے_ محض یہ ایک واقعہ نہیں ہوا بلکہ 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق سال کے صرف 27 دن ایسے گزرے ہیں جب پولیس نے کسی عام آدمی کی جان نہ لی ہو، باقی دنوں میں 1100 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا_ جی ہاں پولیس کا مطلب بھی سمجیے گا_ Protection of)
 life in emergency)
یعنی ہنگامی حالت میں جان بچانے والی فورس_ لیکن یہ تو خود ہی اس ہنگامی حالت کے ذمہ دار بنے_ اور اوپر سے عدالت پہ زور ڈال رہے ہیں کہ یہ کیس تیسرے درجے کا ہے_ یعنی انسانی جان کی ان کے سامنے اوقات تیسرے درجے کی ہے_ اور عوامی ردعمل ساری دنیا کے سامنے ہے_ توڑ پھوڑ پرتشدد واقعات 40 ریاستوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا، جو اب آہستہ آہستہ اٹھایا جارہا ہے_ خود صدر ٹرمپ نے وائیٹ ہاؤس کے تہہ خانے میں گھس کر اپنی جان بچائی_ جرنیلوں کو ان مظاہرین کے خلاف کارروائی کے لیے کہا گیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا_ خدا کی قدرت دیکھیے امریکہ جس کے ہاتھ جاپانیوں ویتنامیوں اور سب سے بڑہ کر مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں 9/11 کے بعد سے مسلمانوں کا جینا حرام کرنے والا، خود کو سب سے بہتر کہنے والا، مسلمانوں کے ساتھ دہشت گردی، شدت پسندی اور انتہا پسندی جیسے الفاظ لگانے والا آج اپنے ہی شہریوں امریکی شہریت رکھنے والوں کو دہشت گرد کہہ رہا ہے_ صدر ٹرمپ نے خود ان مظاہرین کو کہا ہے_ پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ نام نہاد بہادر نے کس طرح جاپان کے بعد عراق میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا_ ایک برطانوی غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق "1 لاکھ 62 ہزار عراقی شہید ہوئے جس میں ٪80 عام شہری تھے"_ اور 2011 کی اس بربریت میں" اس قدر مہلک ہتھیار استعمال کیے کہ کئ دہائیوں تک عراقی بچے معذور پیدا ہوتے رہیں گے" _  اگر اس سے چند برس پہلے کی بات کریں تو افغانستان میں بھی اس نے یہی کچھ کیا، بچوں بوڑھوں، عورتوں اور نہتے بے بس شہریوں پر بمباری کرکے ناصرف یہ بلکہ افغان امن گروپ  تک کو نہ چھوڑا ُملا عبدالسلام ضعیف جو افغانی سفیر تھےکی کتاب (گوانتانا موبے جہنم) اس کا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے_  فی الحال 25 مئی کے واقعے کا ذکر ہورہا ہے_ سابقہ امریکی میئر جیکب فیری نے ٹوئٹ کیا کہ " امریکہ میں سیاہ فام برادری سے تعلق رکھنے کا مطلب سزائے موت نہیں ہونا چاہیے" _ اور سابق صدر باراک اوبامہ نے ٹوئیٹ کیا کہ " وہ ویڈیو (سیاہ فام کی ہلاکت والی) دیکھ کر میں اندر اور باہر سے ٹوٹ گیا ہوں" _ بہت سارے پیدا شدہ سوالات میں سے یہ بھی ہے کہ ان سب کی ہمدردی تب کہاں تھی جب امریکہ عراق میں شیعہ سنی فسادات کی پشت پناہی کر رہا تھا؟ اور جب افغانستان میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا_ تب یہ اندر باہر سے نہیں ٹوٹے تب ان کی انسانیت اخلاقیات بالکل نہیں جاگی_ دوسری طرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مرنے والے سیاہ فام کے مخصوص انداز میں الٹا لیٹ کر ہاتھ پیچھے باندھ کر مرنے والے سے اظہارِ یکجہتی کی اور اس کے آخری الفاظ دہرائے 'چوں کہ اسے گھٹنوں میں دبا دیا گیا تھا اس لیے وہ کہہ رہا تھا'  "میرا دم گھٹ رہا ہے"_ میرا ان لوگوں کی بجائے پوری امت مسلمہ سے سوال ہے کہ جب امریکہ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے آگے بڑھ رہا تھا تو تب کسی نے ایسے احتجاج کیا؟ آج شام کے مسلمانوں کے لیے کسی نے ایسے احتجاج کیا؟ فلسطین کشمیر برما یمن اویغور مسلمانوں کے لیے کسی نے ایسے عالم کفر کو باور کرایا؟_ جی ہاں ہوئے ہوں گے احتجاج اور تب بھی ہوئے تھے جب امریکہ خون کی ہولی کھیل رہا تھا امریکہ میں بھی ہوئے تھے لیکن لوگوں کا احتجاج کافی نہیں جب تک حکمران غیرت مند نہ ہوں_  اگر ہم خود ہی ملک کی بہن بیٹیوں کو پکڑ کر دشمنوں کے ہاتھوں پیش کریں گے تو کیا تاریخ میں ہمارے قصیدے لکھے جائیں گے_ تو کیا سمجھتے ہیں کہ ہم خود بچ جائیں گے؟ بالکل نہیں اس سیاہ فام کی طرح ہمیں بھی اپنے مفادات حاصل کرنے کے بعد اسی طرح گھٹنوں میں دبا کر ماردیں گے اور ہم بھی یہی کہتے رہ جائیں گے "میرا دم گھٹ رہا ہے". "میرا دم گھٹ رہا ہے"َ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :