"بھلائی کا بدلہ برائی"

جمعرات 11 جون 2020

Saif Ullah Shakir

سیف اللّہ شاکر

شیطان انسان کا واحد ازلی وابدی دشمن ہے۔ انسان اکثر اس سے غافل ہو جاتا ہے لیکن شیطان غافل نہیں ہوتا اور بالخصوص مسلمان سے تو کبھی بھی نہیں ہوتا۔ ہمہ وقت گھات لگائے بیٹھا موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ جب کہیں موقع ملے اور اپنا کام کر دے۔ اس کا اصل ہدف اور شکار مسلمان ہی ہیں- آدم علیہ السلام سے شروع ہونے والا یہ سفر کہیں ہابیل اور قابیل کی لڑائی تو کہیں تو کہیں جنگ جمل اور جنگِ صفین بھائی کو بھائی سے لڑاتا ہوا قیامت تک جاری رہے گا- اس کے استعمال کرنے کے بہت سارے ہتھیار ہیں جن میں پیسہ، عورت، اقتدار، انا اور احساسِ برتری- انہیں استعمال کر کے اپنا کھیل کھیلتا ہے- حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سب اپنی اپنی انفرادی خصوصیات کے مالک تھے- لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو مرادِ رسول ہیں انہیں تو دعا سے حاصل کیا- آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جس راستے سے عمر گزرے شیطان وہ راستہ ہی چھوڑ دیتا ہے- شیطان کے سامنے عمر رضی اللہ عنہ کا نام بھی لے لو تو بھاگ جائے گا- ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان کے بارے میں آپ کی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی زینت بنایا "ھذا بہتانُٗ عظیم"- آپ ہی کی پوتی کے بیٹے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز- جنہیں عدل وانصاف مساوات اور برابری کی بنیاد پر عمر ثانی کہا جاتا تھا- آپ کی زندگی خلافت سے پہلے بہت شاہانہ گزری- آپ نہایت خوش پوش نفیس لیکن پاک نفس شخصیت تھے- خوشبو کا بہت زیادہ استعمال کرتے تھے- بالکل شہزادوں جیسی زندگی بسر کرتے تھے- دن میں کئی کئی لباس تبدیل کرتے تھے- اور ان تمام سرگرمیوں اور عادات سے بالکل دور جن میں اکثر بنو امیہ کے خلیفہ رہے تھے- خلیفہ کے کہنے پر 707 سے 713 ء تک حجازِمقدس کے صرف اس شرط پر گررنر رہے کہ میں کسی انسان پر ظلم نہیں کروں گا اگرچہ ایک درہم بھی اکٹھا نہ ہو - اس دوران آپ نے حجازِمقدس کے لوگوں کے دل جیت لیے اور خلیفہ آپ سے بہت خوش ہوا- خلیفہ (سلیمان بن عبدالملک) نے وفات سے پہلے سپہ سالار کے مشورے سے آپ کو خلیفہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

(جاری ہے)

آپ نے مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا "اے لوگو میرے گلے میں جو خلافت کا طوق ڈالا گیا ہے میں نے اسے اتار کر پھینک دیا اب جسے چاہو تم اپنا خلیفہ بناؤ" ۔ کیوں کہ آپ موروثی خلافت کے حق میں نہیں تھے۔لیکن پھر سب نے یک زبان ہو کر کہا آپ ہی ہمارے خلیفہ ہیں۔ خلافت کے دوران آپ نے کوئی سرکاری پروٹوکول نہ لیا سپاہی آگے نیزے لیکر چلنے لگے تو آپ نے فرمایا" میں بھی ایک عام مسلمان ہوں"۔

خلیفہ کے محل میں رہنے کے بجائے اپنے خیمے میں ہی رہے، شاہی سواری کے بجائے اپنے خچر پہ ہی سواری کی۔ آپ نے فرمایا" ”    یہ تشویشناک ناک بات ہی تو ہے کہ مشرق سے مغرب میں امت محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ و اطلاع اس کے ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو"۔ اور مزید فرمایا" میں اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت ضروری جانو اور میں اگر خداکی نافرمانی کروں تو میری بات نہ مانو"۔

آج کے کسی حکمران کی ایسی تقریر کبھی نہیں سنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی تو بات ہی نہیں کی جاتی _  آپ نے اپنے دور میں نو مسلموں سے لیا جانے والا محصول ختم کر دیا اور کہا کہ یہ ظلم ہے۔ جس کے نتیجے میں مصر میں بہت سارے لوگوں نے اسلام قبول کیا ۔جس پر محصول کی آمدنی کم ہوگئی تو وہاں کے حاکم نے بتایا حضور آمدنی کم ہوگئی ہے تو آپ نے جواب دیا  "محصول تو بہرحال ختم کر دو کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہادی بناکر بھیجے گئے تھے نہ کہ محصل"۔

آپ نے اپنے گھر کا ایک ایک نگینہ بیچ کر بیت المال میں جمع کرا دیا۔ لوگوں نے کہا اپنے بچوں کے لیے بھی کچھ رکھیں تو جواب دیا" انہیں اللّہ تعالیٰ کے حوالے کر دیا ہے"۔ اس کے علاوہ آپ نے باغِ فدک اہل بیت کو واپس کر دیا اور خطبے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو تعن وتشنیع کیا جاتا وہ بھی ختم کر دیا گیا یہی نہیں اہل بیت کی جائیدادیں بھی واپس کر دی گئیں۔

آپ نے جگہ جگہ سرائیں بنوائیں جہاں عام مسافر ایک دن اور بیمار دو دن قیام کر سکتا تھا۔ آپ نے شیر خوار بچوں معزوروں اور علماء کے لیے مخصوص وظائف مقرر کیے۔ انصاف کا ایسا نظام قائم کیا کہ لوگوں کو خلافت راشدہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ ایک جگہ ایک بھیڑیے نے ایک بکری کو چیر پھاڑ دیا تو چرواہے نے شور مچا دیا آج عمر بن عبدالعزیز اس دنیا میں نہیں رہے۔

کیوں کہ ان کی زندگی میں بھیڑیا اور بکری ایک چشمے سے پانی پیتے تھے۔ یہاں سے حاکم کی تاثیر یا کم از کم ہونے کا ہی پتہ چلتا ہے۔ بنو امیہ نے آپ کے ایک خادم کے ذریعے آپ کو زہر دیا۔ اسے پکڑ لیا گیا اور پھر  اس نے کہا کہ مجھے ایک ہزار درہم دیا گیا اس کام کے لیے۔ آپ نے اسے معاف کردیا اور ایک ہزار درہم بیت المال میں جمع کرا دیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک نہایت بے ضرر اور غیر متنازعہ شخصیت تھے_ شیعہ اور سنی دونوں حلقوں میں انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا_ شیعہ امام باقر کو ان میں صرف  یہ خامی نظر آئی کہ جس مسند پہ وہ رہے اس پہ معصومین کا حق تھا۔

آپ نے 720ء میں وفات پائی۔ آپ کی قبر مبارک شام میں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ چند شر پسند عناصر نے آپ اور آپ کے گھرانے کے چند دوسرے لوگوں کی قبر سے ان کا جسدِ خاکی نکال کر ان کی بے حرمتی کی_ یہ لوگ  کیا اپنے آباؤاجدا کے ساتھ کیے ہوئے احسانات کا بدلہ یوں دے رہے ہیں؟ ۔۔ کیا انسانیت کے ساتھ بھلائی کا یہ انعام ہے؟ ۔

کیا انسانی اخلاقی اور قانونی طور پر یہ غلط نہیں ہے ؟ ۔لیکن افسوس ہے ان صاحبانِ اقتدار پر جو قاتل ریمنڈ ڈیوس،گستاخ رسول آسیہ بی بی اور ملالہ کو تو تحفظ دیتے ہیں لیکن اس افسوسناک واقعے پر ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ صرف پرویز الٰہی صاحب اور بول ٹی وی کی ایک اینکر نے یہ کام کیا۔ ہم پھر کس منہ سے کل قیامت کے دن شفاعت کے امیدوار ہیں۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :