موت اگلتا کورونا اور بھلکڑ انسان کی نادانیاں

پیر 6 اپریل 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

انسان ازل سے نا شکرا رہا ہے تاریخ کے بابوں کو کھول کر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے جب جب انسان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹے اس نے مسجد،مندر اور چرچوں کا رخ کیا جب بلا سر سے ٹلی تو یہ جسد خاکی خدا سے یوں مخاطب ہوتا ہے
''توں کون میں کون''
مصیبت میں تو ہمیں مسجد و مندر بڑے اچھے سے نظر آتے ہیں مصیبتوں کے پہاڑوں تلے ہمارے سجدے بہت ہی طوالت پکڑتے ہیں گویا کہ ہم سے بڑا کوئی دین دار شاید ہی دنیا کے کسی کونے میں ہو
آدم کو خدا نے پیدا کیا ان کی پسلی سے بی بی حوا کو نکالا آرام و آسائش کی ہر شے دے کر جیتے جی جنت میں داخل کر دیا کہ جاؤ عیش و عشرت کی زندگی گزارو کوئی روک ٹوک نہیں ماسوائے اس پھل کے
مگر وہ کہتے ہیں نا
''ہم کہاں ٹالنے سے ٹلتے ہیں''
ہماری فطرت ٹھہری جس کام سے روکا جائے وہی کر کے دکھانا پھر چاہے وہ کسی کے بہکاوے میں آ کے کیا جاوے یا اپنی من مرضی سے بابائے آدم نے پھل کھایا اور اس پھل کا خمیازہ آج تلک ہم بھگت رہے ہیں
اللہ میاں نے ہر دور میں نت نئے سرے سے بسنے والے بھولے بھٹکے انسانوں کو راہ راست پر لانے کیلیئے کچھ نا کچھ آسمان سے نازل کیا پھر چاہے وہ زلزلے کے چند جھٹکے ہوں 9/11 میں کسے ہوئے چیتھڑے اڑتے بپھرے پڑے خون میں لت پت لت بکھری لاشیں ہوں پھر چاہے وہ ایک ننھی سی مخلوق بنام ڈینگی ہو یا حال میں اک ناگہانی آفت کی صورت میں نازل ہوئی کورونا کی سی متعدی بیماری ہی کیوں نہ ہو
''مگر ہم تو ٹھہرے فطرتا شیطان کے جیالے''
ایک مثال دیتا ہوں آپ کو ایک باپ اور ایک بیٹے کی اگر بیٹا نافرمان ہو گا تو باپ پہلے مرحلہ میں بیٹے کو سمجھانے کیلیئے نصیحت آمیز جملے استعمال کرے گا اگر تو بیٹا باز آجائے تو باپ بیٹے سے خوش ہو کر اس پر اسکی من پسند چیزوں کے انبار لگا دے گا اگر وہ باز نہ آئے گا پھر بچتا ہے لاٹھی چارج پھر بچتی ہے مار پیٹ
کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد مبارک ہے
''باپ کی مار بیٹے کیلیئے ایسی ہے جیسے کھیتی کیلیئے پانی''
نوے فیصد چانسز بڑھ جاتے ہیں مار پیٹ سے بیٹے کے سدھرنے کے کیونکہ ''لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے''
بالکل اسی طرح خدائے زوالجلال اپنے بندوں کو پہلے اپنے جاری کیئے گئے فرمان اور نازل کی گئی آیات سے سبق سیکھانے اور سیدھی راہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں اگر تو قرآن پاک اور نبی کریم کی آیات سے راہ راست پر آجاویں یہ بھولے بھٹکے انسان پھر خدا بھی خوش خدا کا محبوب بھی خوش اور خود بندا بھی خوش
دوسری صورت میں اگر نصیحتوں س انسان نہ سمجھے تو پھر اللہ میاں اپنے عذاب کی لاٹھی چارج کرتے ہیں جسکا مقصد ہم بھولے بھٹکے لوگوں کو راہ راست پر لانا ہوتا ہے
بالکل اسی طرح حیسے ایک باپ اپنے بیٹے کو راہ راست پر لانے کیلیئے یہ ہتھکنڈا اپناتا ہے
بات کرتے ہیں کورونا کی بات کرتے ہیں لاک ڈاؤن کی بات کرتے ہیں انسانی زندگی پر اثر کرنے والے اس وائرس کی بات کرتے ہیں اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کی
کیونکہ خدا نے کوئی بھی ایسی بیماری پیدا نہیں کی جسکا علاج ممکن نہ ہو ہاں مگر کوشش سے سب حاصل ہوتا ہے جب تک انسان کوشش نہیں کرے گا اسے کچھ حاصل نہ ہو گا پھر چاہے وہ خوراک کا ایک نوالہ ہو یا پھر اس ظالمانہ آفت کا علاج ہی کیوں نہ ہو
اصل میں ہم اس سوشل میڈیا کے جال میں کچھ یوں پھنس چکے ہیں ہیں کہ ہمیں اس سے نکلنے کی کوئی راہ میسر ہی نہ ہے
اسی کے کرموں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم نے ایک چھوٹے سے وائرس کو خود کے سر پر اس قدر حاوی کر لیا کہ موت سے خوف آنے لگا ہے دن رات اول فول بک بک کے ہم نے ہر ایک کو خوف و حراساں کر رکھا ہے سوئے نیگیٹیویٹی کے ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں آئے دن فلاں جگہ اتنے بندے کورونا کی وجہ سے مر گئے فلاں جگہ کورونا کی بدولت ہر چیز کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا فلاں جگہ کورونا کے مریض کو بنا دفنائے کفنائے پھینک دیا گیا
مانتا ہوں یہ سب حقیقت ہے اک ایسی دلخراش حقیقت جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا مگر کیا ہم اس نیگیٹیویٹی کے ساتھ ساتھ کچھ پازیٹو پہلو اجاگر نہیں کر سکتے مانتا ہوں لوگ مر رہے ہیں مگر کیا ساتھ میں صحت یاب نہیں ہو رہے؟مانتا ہوں مارکیٹس بلاک ہیں کیا وہی کریانہ اسٹور ضروریات زندگی فراہم کرنے والی دکانیں کھلی نہیں ہیں؟ مانتا ہوں آئے دن لوگوں کو گھروں کی دہلیز تک قید کرنے کے اقدامات کیئے جا رہے ہیں میں پوچھنا چاہوں گا کیا اس میں آپ ہی کی بھلائی نہیں ہے؟ آپ کو گھر کی دہلیز تک قید و بند رکھ کے ضروری احتیاطی تجاویز ہیش کر کے ان پر عمل کرنے ہی ہدایت سے بھلا کہنے والوں کا کیا فائدہ ہو گا کیا اس میں آپ ہی کا فائدہ نہیں ہے؟؟ اگر آپ اور ہم سب لوگ پہلے دن سے حکومت کی جاری کردہ ہدایات پر تہہ دل سے عمل کرتے تو شاید آج یہ سب کچھ نہ ہوتا
زندہ قومیں یوں نہیں کرتیں زندہ قوموں کی مثال چین کی شکل میں آپ کے سامنے ہیں جنھوں نے حکومتی آرڈر پر عمل کیا اور چند ہفتوں میں صحت یاب ہو کر اپنے معمول کے کاموں میں جتے ہوئے ہیں
کیا جاتا ہے آپ کا اگر چند دن گلوز اور ماسک لگا لیں تو؟
مگر نہیں ہماری جہالت کا تو یہ المیہ ہے
کہ
''جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں ہے''
ہاں مانتا ہوں موت کا ایک دن معین ہے جو وقت موت کا مقرر اس پل سے ایک لمحہ نہ اگے زندگی بڑھنی نہ کم ہونی مگر اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم موت کو للکارتے پھریں
ہم ہیں کہ کبھی میمز بنانے میں لگے ہیں تو کبھی ویران پڑی سڑکیں دیکھ کر ون ویلنگ کرتے پھر رہے
ہم خود اپنے کرموں اور عملوں سے عذاب الہی کو دعوت دے رہے ہیں مسلمانوں سنبھل جاؤ کیا تم نے سن نہیں رکھا
''خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے''
حکومت کا نہ سہی کم سے کم اپنے پیارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا مان لو
آپ کی حدیث مبارکہ ہے جسکا مفہوم ہے
ایک دفعہ ایک صحابی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ میری اونٹنی گم گئی ہے مل نہیں رہی آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے اسکے گھٹنے کو باندھا تھا؟(جنکا گزر اونٹوں والوں کے پاس سے ہوا ہو یا کسی اونٹ کے مالک سے تعلق ہو انھیں پتہ ہو گا کہ جب اونٹ بیٹھتا ہے تو  اسکے ایک گھٹنے کو رسی سے اس طرح باندھ دیا جاتا ہے کہ اسکی وہ ٹانگع سیدھی نہیں ہو سکتی مطلب وہ چل پھر نہیں سکتا)صحابی فرمانے لگے یا رسول اللہ نہیں تھا باندھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر جاؤ اور جا کے ڈھونڈ لو خود ہی جب تم نے اسکی حفاظت کا سامان ہی نہیں تھا رکھا پھر کیسے اور کیونکر وہ مل سکتی ہے
اب اسے ہم کورونا کی جاری کردہ ہدایت پر لاگو کرتے ہیں حکومت کا فرمان ہے ماسک لگانے کا گلوز ڈالنے کا تو کیا ہم آپ کے حکم کی عدولی نہیں کر رہے؟ خود کو کورونا سے بچانے کی حفاظتی تدابیر پر عمل نہ کر کے خدارا احتیاط برتو
''احتیاط علاج سے بہتر ہے''
وگرنہ تمہاری میت کو غسل تو کیا جنازہ بھی ڈھنگ کا نصیب نہ ہو گا اور تم گھسیٹ کر گڑھے نما قبر میں پھینک دیا جائے گا نہ کوئی فاتحہ ہو گا نہ درور بس رسم ہو گی اک رسم
یہ چار دن کی احتیاط کو قید مت سمجھیں وگرنہ باہر نکلنے سے لقمہ اجل بن جائیں گے اور پھر کبھی گھر لوٹنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :