مولانا صاحب اور میڈیا تنازع

اتوار 26 اپریل 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

اس سے پہلے کہ میں مولانا طارق جمیل صاحب اور میڈیا کے مابین چھڑے تنازعے پر بات کروں،اور اپنا موقف بیان کروں۔ ایک چھوٹی سی بات یہاں ضرور پیش کرنا چاہوں گا۔
جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں۔ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہر کہی ہوئی بات کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک مثبت،ایک منفی پہلو اب جو بات آپ نے سنی وہ مثبت پہلو میں کہی گئی یا منفی پہلو میں اسکا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔

کیونکہ یہ فیصلہ وہی کر سکتا ہے جس نے وہ بات کہی ہے۔ آیا کہ اس نے کس رخ میں بات کی۔ باقی ہم سبھی سمجھدار ہیں ہم مختار ہیں اپنی مرضی کے۔ ایک اچھی خاصی مثبت بات کو منفی پہلو میں گردانیں یا ایک منفی کو مثبت میں یہ ہم پر ڈیپینڈ کرتا ہے۔
اب آتے ہیں مولانا صاحب اور میڈیا کے تنازع پر۔

(جاری ہے)

تو بات کچھ یوں شروع ہوتی ہے مولانا صاحب باتوں کی روانی میں بول دیتے ہیں۔

میڈیا جھوٹا ہے۔ اب اگر ہم اس بات کو سر سری دیکھیں تو یہ صرف تین لفظی بات ہے۔ جو آج کے دور میں ہر چوتھا بندا بولتا پھرتا ہے۔ اب مولانا صاحب کی بات کو کیوں اتنا سیرئیس لیا گیا؟ کیوں کر انکی تذلیل کی گئی؟ ایک عالم دین ہونے کے ناطے ایک راہبر ہونے کے ناطے اگر ان سے بھول چوک ہو بھی گئی تو کیوں ان سے معافی منگوائی گئی۔
میں نہ تو مولانا صاحب کی حمایت میں کچھ بولوں گا،نہ میڈیا کا جیالہ بنوں گا۔

میں خود کو نیوٹرل رکھتے ہوئے اپنا موقف بیان کروں گا کیونکہ بولنے کی آزادی ہر ایک کو میسر ہے۔
مولانا صاحب کی اگر بات کریں تو انھیں کیا ضرورت پڑی کہ سیاست کے جھیل جھمیلوں میں پڑیں انکا کام دین کی سربراہی کرنا ہے۔  جو وہ بہت اچھے سے کر رہے تھے۔ کیونکر خود کو اس دلدل میں دھکیلا۔
پنجابی کا ایک قول ہے۔
''جدوں گھانی اچ وڑ جائیے فر چھٹاں تے پیندیاں نے''
جب تلک مولانا صاحب دین سے جڑے تھے۔

تب تلک وہ سب کی آنکھ کا تارہ تھے۔ جونہی انھوں نے خود کو سیاست سے تھوڑا منسلک کیا۔ خواہ پھر وہ عمران خان کے ساتھ چند پل بتا کر تھا۔ یا ان کی حمایت میں چند حوصلہ افزاء کلمات بول کر تھا۔ خیر جیسے بھی تھا۔ جونہی منسلکی ہوئی ان پر تنقید ہونا شروع ہو گئی۔ وہ الگ بات کہ پہلے کسی کو سر عام ان پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی واضح مدعا مل نہیں رہا تھا۔

اب مل گیا۔ اب سامنے اس بات کو رکھ کر بھڑاس پرانی نکالی جائے گی۔
اگر بات کریں میڈیا کی جو مین چیز تھی اس تنازع کی کہ ''میڈیا جھوٹا ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر بات کی ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔  بالکل ویسے ہی یہاں بات سمجھنے کی تو یہ ٹھہری۔ آیا کہ انھوں نے یہ لفظ بولا کس کیلئے تھا کسی ایک مخصوص کیلئے؟ کسی ایک گروہ کیلئے؟ یا اوور آل کیلئے؟ یہ تو مولانا صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔

  کیونکہ ہم اگر اپنے گریبان میں جھانکیں تو جھوٹ تو خیر ہم تھوڑا بہت نہیں واہ واہ بول جاتے ہیں۔ سبھی نہ سہی۔ چونکہ جہاں اچھائی ہوتی ہے وہاں برائی ہونا لازم بات ہے۔ دوسری بات جو مولانا صاحب نے ایک واقع بیان کیا تھا کسی نیوز چینل کا۔ جسکا ان سے ثبوت مانگے گئے۔ ان سے اس کا نام پوچھا گیا۔ وٹ سو ایور۔
اگر وہ حقیقت تھی تو شاید اس چینل والے نے اپنے چینل کی حقیقت سامنے رکھ کر بات کی ہو گی۔

اگر وہ مولانا صاحب کی من گھڑت بات تھی۔ تو ہم اسے الزام تراشی سے ہٹ کر اگر دیکھیں۔ تھوڑا مثبت ہو کر سوچیں کہ آیا کہ شاید انھوں نے اصلاحی طور پر جھوٹ کی وبا کو ہمارے معاشرے سے ختم کرنے کیلئے کہی ہو۔ کیونکہ میرے خیال سے اصلاحی کام کیلئے جھوٹ بولنے میں کوئی ممانعت نہیں۔
اب یہاں ہمیں کسی ایک کی طرف داری کر کے اس معاملے کو طول نہیں دینا۔ یہاں ضرورت ہے اسے ختم کرنے کی۔ کیونکہ جو آدمی معذرت کر لے پھر چاہے وہ غلطی پر بھی ہو اس بات کو وہی دفن کر سب چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :