اندھا دھند دھن کمائی

پیر 15 جون 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ماسک،ٹمپریچر گن،سینیٹائیزرز کی بلیک مارکیٹنگ،آٹا چینی بحران، این95 ماسک کی قیمتی بڑھوتری،سنامکی کی قیمت میں پزاروں روپے کا اضافہ، پٹرول کی قلت،وفاقی بجٹس میں نارمل سے ذیادہ اپس اینڈ ڈاؤنز اور کلوروکوئین ٹیبلٹ کی قیمت بڑھا کر ناجائز منافع کمانے کے بعد اب پیش خدمت ہے پلازما کی خرید و فروخت۔
جہاں ایک طرف کورونا نے ہماری زندگیوں میں طوفان برپا کر کے رکھا ہوا ہے۔

وہیں دوسری طرف ان نام نہاد تاجروں اور سٹاک مارکیٹرز نے اپنی ایک الگ ہی گنگا بہائی ہوئی ہے۔ جس میں آئے دن ہم آپ چھوٹا، بڑا بچے بزرگ سبھی بہتے ہی جا رہے ہیں۔ کورونا کے ختم ہونے تک کہاں پہنچ جائیں پتہ نہیں۔
ویسے تو ہم سبھی آئے دن نئے پاکستان کا رونا روتے رہتے ہیں۔ خود کو ترقی یافتہ بیرون ممالک سے کمپیئر کر کے اپنا خون جلاتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن کبھی سوچا ہے ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟ کیوں انھوں نے جلد کورونا پر قابو پا لیا،اور کیوں ہمیں غریب عوام سے فنڈنگ کر کے پھر انہی پر خرچ کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے؟ کیوں کہ ان کی نیتوں میں ہم سا فطور نہیں ہے شیطانی نہیں ہے، عوام میں بھلے سہی لیکن کم سے کم ان کے حکمرانوں میں تو بالکل بھی نہیں ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے خود کے سسٹم کے سسٹم کا ان کے سسٹم سے موازنہ کر کے دیکھتے ہیں۔

اگر بیرونے ممالک کی بات کی جائے تو کورونا کے آتے ہی حکمران اعلان کرتے ہیں میری حکومت کے جتنے بھی کابینہ کے ممبرز ہیں اگلے چھ ماہ تک سب کی تنخواہوں میں سے بیس فیصد کٹوتی ہو گی جو کہ غریب عوام پر خرچ ہو گی۔ دوسری جانب ہماری حکومت کیا کرتی ہے کورنا کے آتے ہی فنڈنگ سٹارٹ کر دی، بجٹ پیش کیا گیا نہ کسی کا کچھ بڑھایا گیا نہ کم کیا گیا بلکہ الٹا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو کم کرنے کی تجاویز سامنے رکھ دی گئیں۔

بھئی اگر تم لوگوں نے لاک ڈاؤن لگایا ہے اسکول و کالجز بند کیئے ہیں تو سرکاری ملازمیں نے تم سے تھوڑی نا کہا ہے کہ بند کرو۔ انھیں کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟
اشیاء کی خرید وفروخت کے معاملے میں اگر بیرون ممالک کی بات کریں تو ہمیں نظر آتا ہے۔ کورونا کے آتے ہی سبھی ایک جٹ ہو کر کسی کو کانوں کان خبر ہونے سے پہلے غریبوں تک راشن پہنچا رہا ہیں۔

اور اگر ہم اپنی بات کریں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے۔ ایک تھیلا جس میں چند ایک ضروریات زندگی کا سامان ہے کسی غریب کو پکڑاتے ہوئے سیلفیز لے کر سوشل میڈیا پر وائرل کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم بیرون ممالک کی بات کریں تو پلازما ٹریٹمنٹ کا سن کر سبھی ہنسی خوشی ڈونیشن کے لیے بھاگے چلے آ رہے ہیں کہ یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہو گی اگر ہماری وجہ سے کی کی جان بچ جائے تو، ارو دوسری طرف ہم پلازما کی ڈونیشن کو بھی اپنے مقصد و ماصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

لاکھوں میں پلازما بیچ کر اپنے پیٹ پر ہاتھ مار رہے ہیں۔
پٹرول میں پانی ملا کر اسے سو کا لیٹر فروخت کر رہے ہیں۔ سنامکی دو سو روپے کلو تھی اسے چوبیس سو کا کلو فروخت کر رہے ہیں۔ ماسک دس روپے کا تھا اسے چالیس روپے یہاں تک کہ اسی روپے کا بھی کر کے بیچ رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارا ملک گندا ہے نہیں بلکہ ہماری عوام گندی ذہنیت کی ہے۔

جسے بس اپنا آپا نظر آتا ہے اور کچھ نہیں ابھی کچھ دن پہلے میرے ایک دوست نے سوال کیا کہ ان چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب کیا ہے آخر کون زمہ دار ہے ان سب کا؟ میں نے دو ٹوک لفظوں میں اسے جواب دیتے ہوئے کہا۔ سنو بھائی یہاں سبھی آستین کے سانپ ہیں جب انھوں موقع ملے گا یہ ڈس لیں گے۔ کس نے کب ڈسنا ہے یہ وقت طے کرتا ہے۔ کورونا کے دنوں میں ان نام نہاد تاجروں کے ڈسنے کی باری ہے۔

جب کورونا ختم ہو جائے گا سبھی اپنی لائن پر آ جائیں گے،ہمارے ملک میں ایک ریڑھی پر رکھ کر پھل بیچنے والے سے لے کر سینٹ میں بیٹھے سینیٹر تک سبھی کرپٹ ہیں ماسوائے چند ایک کے لیکن ہمارے ہاں ایک اصول پایا جاتا ہے کہ ہر معاملے میں میجورٹی کی ریسپیکٹ کی جاتی ہے۔ اس لیے ننانوے کے سامنے ایک کی کوئی ویلیو نہیں رہ جاتی، سو ہم کسی ایک کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :