''ویلنٹائن ڈے اک معاشرتی ناسور''

جمعرات 11 فروری 2021

Saleem Saqi

سلیم ساقی

ایڈوانسمنٹ کے نام پر ہم بے حیائی کی دلدل میں آئے دن دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں یورپین کلچر انکے رسم و رواج کی بیڑیوں نے ہم مسلمانوں کے پاؤں کو اس قدر مضبوطی سے جکڑ رکھا ہے کہ ہم چاہ کر بھی اس سے آزادی حاصل نہیں کر سکتے بلکہ آئے دن انکے لانچ کردہ فیشنز کی کال کوٹھڑی میں خود کو بند کرتے چلے جا رہے ہیں یہاں تک کہ ہم نے یورپینز کی دیکھا دیکھی مدر ڈے(Mother day) اور فادر ڈے(Father day) منانا شروع کر دیا ارے بھولے لوگوں ماں باپ کا بھی کوئی دن ہوتا ہے کیا؟ اگر یوں کہا جائے کہ ماں باپ کے بنا کوئی دن دن نہیں ہوتا تو بےجا نہ ہو خیر ایسے مسئلے مسائل تو ان گنت ہیں جنہیں بیان کرنے پہ آئیں تو کئی سارے پنے سیاہ ہو جائیں لیکن آج میری بحث کا موضوع کوئی اور نہیں صرف '' ویلنٹائن'' ہے یعنی بے حیائی کا دن اک ایسا دن جس دن محبت کے نام پر پھول اور چاکلیٹس دے کر عزتیں لوٹی جاتی ہیں لوٹنا تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ لوٹنے کا زمرہ زبردستی سے پوری کی گئی نفس کی تسکین کو کہتے ہیں لیکن یہاں یہ تسکین ویلنٹائن کے نام پر خوشی خوشی دونوں فریقین کی رضامندی سے پوری کی جاتی ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ انتہائی غلیظ و غلاطت کا کام ہے جسے سن کر ہر ایک چھییی چھییی تو کرتا ہے لیکن اسے ختم کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتا کیوں؟ کیا ہم نے یورپین کلچر کو خود پر اس قدر سوار کر لیا ہے کہ ہم بے حیائی کو آنکھوں سے دیکھ کر بھی خاموش ہیں؟ ہمارے والدین کیا اتنے بھولے ہیں کہ انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں انکی بیٹی ویلنٹائن ڈے پر ایکسٹرا کلاسز کا بہانہ لگا کر گھر سے جا رہی ہے اور رات گئے واپس آ رہی ہے کیا انکا حق نہیں بنتا کہ اس سے پوچھا جائے بیٹی کہاں تھی تم کلاسز تو اتنے سے اتنے بجے تک چلتی ہیں تم کیوں لیٹ پہنچی؟ لیکن نہیں کیوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ ایڈوانسمنٹ کی پٹی نے آجکل کے والدین کو اندھا کر دیا ہے ہمارا دین کیوں کہتا ہے کہ لڑکی اور لڑکا کی بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہی شادی کر دی جائے کیوں؟ کیا انکا نکاح کرنا صحیح ثابت ہو گا یا یوں سرعام عزت نیلام کرنا صحیح ہو گا؟ اصل میں یہاں قصور کسی ایک کا نہیں یہاں قصور سب کا ہے اس گندگی کو پھیلانے میں تھوڑا تھوڑا سبھی کا ہاتھ ہے۔

(جاری ہے)


اس گندگی سے چھٹکارا پانے کا حل پہلے سے موجود ہے جس پر بہت سے لوگ عمل پیرا بھی ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا جہاں ایک طرف ویلنٹائن کے نام پر سرخ پھول اور چاکلیٹس کا تبادلہ کیا جاتا ہے وہیں دوسری طرف ایک طبقہ اس دن کو ''یوم حیا'' کا نام دے کر پردہ اور حیا کی فراوانی کا درس دیئے پھرتا ہے لیکن چند ایک کیونکہ افسوس ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہے جہاں میجورٹی کو ذیادہ ریسپیکٹ دی جاتی ہے پھر چاہے میجورٹی غلط راہ پر ہی کیوں نہ ہو لیکن سر پھری عوام ان کے پیچھے ہو لیتی ہے ان سب باتوں کی ایک خاص اور وہم وجہ ہم مسلمانوں کی دین سے دوری ہے کیونکہ غلط راہ شیطان کی راہ ہے اور شیطان انسان کو کھلم کھلا دشمن ہے ہمارے ہاں پنجابی کی ایک کہاوت ہے
''خالی گھر جناں دا بسیرا ہندا''
یعنی کہ جہاں ویران و سنسانی ہو گی وہاں عموما جن ہوں گے بلکل اسی طرح جو دل ایمان سے خالی ہو گا وہاں شیطان کا بسیرا ہو گا اور ہم نے خود کو اس قدر دین سے دور کر دیا ہے کہ ہمارا دل اس کھنڈر حویلی کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں صرف بےفائدہ بوٹیاں ہی اگیں گی پھل آور درخت نہیں اور ہماری دین کی دوری نے ہمارے دل کو شیطان کا گھر بنا دیا ہے اور شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے جو کبھی یہ چاہے گا کہ کوئی ابن آدم یا بنت حوا برائی سے دور رہ کر جنت میں جائے اس لئے ہمیں خود کو اس برائی سے دور رکھنا ہو گا اور دین کے قریب سے قریب تر ہونا گا یہی واحد ذریعہ ہے اس گندگی سے نکلنے کا وگرنہ ہمارا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ ہو گا۔

۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :