”میری رحمت سے مایوس مت ہونا“

جمعرات 23 اپریل 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

انسانی تاریخ کے اس المناک موڑ پہ ہر طرف ایک افراتفری کا عالم ہے۔ایک نظر نہ آنے والے جرثومے نے دنیا کی سپر پاورز کو بے دست و پا کر کے رکھ دیا ہے۔ایک عام جراثیم سے بھی کم سائز رکھنے والے ایک جراثیم نے قوت، طاقت اورٹیکنالوجی کے جھنڈے گاڑنے والے انسانوں کو عاجز کر کے رکھ دیا ہے۔اس سے قبل بھی خبریں آتی رہیں کہ مختلف قسم کے ایسے وائرسز کو افریقہ کے پسماندہ ملکوں میں انسانوں میں پھیلا کر اس کے اثرات کے تجربات ہوئے اور دنیا خاموش رہی۔

سمندر کی ریت پر ایک معصوم کی سجدہ ریز لاش پانی کی موجوں کے بہاوٴ سے ساحل پہ آ لگی ا ور ہم نے دیکھ کر آنکھیں موند لیں۔عالم اسلام کی قیادت کا دعوی کرنے والوں کی گولہ باری سے زخمی شامی بچے کے چھلکتے آنسووٴں کے یہ لفظ تاریخ کی آنکھوں میں محفوظ ہو چکے جس نے یہ کہا کہ میں اللہ کے پاس جا کر تم سب کی شکایت کروں گا اور ہم نے منہ دوسری جانب کر لیا۔

(جاری ہے)

ہم نے معیشت کو خدا سمجھتے ہوئے عرب کی سرزمین پر دنیا کا سب سے بڑا بت خانہ تعمیر کر دیااورخدا دیکھ رہا تھا۔ جرموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ مختصر ذکر کرنے سے بھی دفتروں کے دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔ 
اس ساری صورت حال میں مزے کی بات یہ ہے کہ وجود خدا کا انکار کرنے والے مادیت پرست انسانوں کے پاس ایک نظر نہ آنے والے چھوٹے سے وائرس پر ایمان لانے کے بعد خدا کے وجود کو جھٹلانے کا کیا جواز باقی رہ گیا ہے۔

وائرس کے حوالے سے پیش کئے جانے والے مختلف خدشات کا اظہار یقینا قبل از وقت ہے جو اب زیادہ دیر راز نہیں رہے گا۔لیکن اگر یہ انسانوں نے خود تخلیق کیا تھا تواب خود ہی اس کے آگے چاروں شانے چت ہوئے پڑے ہیں۔معیشت ،معاشرت، روایات، اقدار سب کچھ ایک معمولی سے چیز نے روند کے رکھ دئیے ہیں۔اقوام عالم میں ایک ہی قوم اس مہلک اور انسانیت کش حادثے کو اپنی مذہبی اقدار سے جوڑ رہی ہے باقی ہر طرف کلیسا ہوں کہ مندر ہوں، گوردوارے ہوں کہ مساجد۔

سب عبادت گاہیں خاموش ہیں۔
اگر یہ ففتھ جینریشن وار کا سب سے خطرناک حملہ ہے تو اس سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتاہے۔اس سے بیک وقت اگر کسی ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانا مقصود تھا تو وہ بھی ہو چکا، انسانوں کو اپنے خوف میں مبتلا کرنا تھا تو وہ بھی ہوچکا۔ لیکن گلوبلائزیشن کے تناظر میں بغور دیکھا جا ئے تو اس حملے کا سب سے بڑا نشانہ مذہب لگتا ہے۔

اور مذاہب عالم میں اگر کسی مذہب کی بنیادوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے تو اسلام ہے۔اس وائرس نے جسموں سے زیادہ ہماری روحوں کو کاٹ کھایا ہے۔ہماری ایمانیات کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔میڈیا کی زورآور قوت کے ذریعے ہم وہی سن رہے ہیں جو ہمیں سنایا جا رہا ہے، ہم صرف وہی دیکھ رہے ہیں جو ہمیں دکھایا جا رہا ہے، ہم وہی بول رہے ہیں جو ہمیں کہا جا رہا ہے۔

ہمارا اپنا پن ڈبکیاں لے لے کے نڈھال ہوا پڑا ہے۔ہمارے مذہبی مراکز کی بندش کسی طاقت کے زور سے ممکن نہیں تھی۔یہ شفاخانے ہماری روحانی جسمانی بالیدگی کا سامان کر رہے تھے۔
اگر آپ غور کر سکتے ہیں توہلکی ہلکی آوازیں سنائی دینا شروع ہو گئی ہیں کہ لوگوں کو شفائیں بانٹنے والے خود وائرس کیں نذر ہو گئے ہیں، خدا کا گھر بھی بس ایک استعارہ بنا ہوا تھا وہ بھی اس حملے سے محفوظ نہیں رہ سکا۔

زم زم جس کو پینے سے قبل بیماریوں سے شفاء کی دعا کا کہا گیا ہے وہ بھی بند ہو گیا۔خاک شفاء بھی زیر زمین دفن ہو گئی۔پیغمبر کے لعاب دہن سے مزین کنویں بھی بند کروا دیئے گئے۔ہمارا تو کچھ بھی نہیں بچا۔ہمارے پاس تو زندگی کی ایک ہی علامت ایمان کی شکل میں موجود تھی جس پر بڑا شدید حملہ ہوا ہے۔
ابھی وقت گزرا نہیں ہے۔ہم تاریخ کے اس مشکل ترین مرحلے پر بھی تن آسانی سے لپٹے پڑے ہیں۔

رات کو دس بجے گھروں پر اذانیں ضرور دیں لیکن یہ وقت ہے کہ ہم اہل ایمان کو اس وقت اٹھنے کا کہیں جس کو قرآن کہتا ہے کہ اس وقت جاگنا نفس کو روند ڈالتا ہے۔جب خالق کائنات آسمان دنیا پر تشریف فرما ہو تا ہے اور صدائیں بلند ہوتی ہیں کہ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی شفاء مانگنے والا کہ اسے عطا کی جائے۔12ارب مسلمان رات کے اس پہر اٹھ کر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں تو اس کا وعدہ سچا ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہم اس وقت تجدید ایمان کے کنارے پہ کھڑے ہیں۔ کریں۔اس کے ہو جائیں جو کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے، اس کے حضور جھک جائیں جو کسی کے آگے جھکنے سے بے نیاز کر دیتا ہے، اس کی طرف چل پڑیں جو ایک قدم اٹھانے پر گئی گنا زیادہ بندے کی طرف آتا ہے، جس کی محبت ستّر ماوٴں سے زیادہ شفقت اپنے بندوں پہ فرماتی ہے،اس کے آگے دست معافی دراز کر دیں جو معاف کرنے میں دیر نہیں لگاتا، اس سے دور ہونے کے تاثر کو دل سے زائل کر دیں جو واقعی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔

اس سے پہلے کہ اسی حالت میں ہمیں ہمیشہ کیلئے سلا دیا جائے ہمیں جاگ جانا چاہئے۔دیر تو بہت ہو چکی لیکن آئیے اپنی عاجزی،بے بسی،بے چارگی اور انکساری اور شرمساری لے کر اسی کے حضور حاضر ہوتے ہیں جس نے خود یہ امید دلائی ہے کہ خبردار کسی بھی حال میں میری رحمت سے مایوس مت ہونا۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :