کرونا اورکچھ گردش کرتے خدشات

جمعہ 1 مئی 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

لاک ڈاؤن کو اب دو ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا اور اس نظر بندی کے دوران خدشات کا جنم لینا ایک فطر ی عمل ہے۔ان میں صداقت کہاں تک ہے اس کو ثابت ہونے میں بہر حال وقت لگے گا۔ لیکن یہ بنیادی خدشات مکمل نہیں تو کچھ نہ کچھ ضرورفکر کی دہلیز پر دستک دیتے محسوس ہوتے ہیں۔ان کا آغاز چین کے شہر ووہان سے ہوتا ہے جو کرونا کی مدر لینڈ قرار پایا۔

سب سے پہلے یہ خدشہ سر اٹھاتا ہے کہ آخر چین کے پاس وہ کون سی ٹیکنالوجی تھی کہ جس کے سبب اس نے وائرس پرمکمل قابو پا لیا اور ترقی یافتہ قوموں کے بڑے بڑے اہم ملک اس کے چنگل سے ابھی تک نہیں نکل پائے۔آخر باقی دنیا کی ٹیکنالوجی، ذہانت اور طبی مہارت ان کے تجربے اور اقدامات سے کیوں فائدہ نہیں اٹھا سکی؟ووہان میں اس مرض میں مبتلا تمام مریض ہسپتالوں سے فارغ  ہو کر گھروں کو پہنچ چکے ہیں اور وہاں زندگی معمول پہ آ چکی ہے۔

(جاری ہے)

حیرت ہے کہ امریکہ برطانیہ اٹلی سپین جرمنی جیسے جدید ملک اس تاحال بے بس نظر آ رہے ہیں۔اگر کوئی ایسا کامیاب تجربہ ہو چکا تھا تو باقی دنیا اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکی؟چند دنوں میں کرونا وائرس سے نپٹنے کیلئے الگ ہسپتال کا قیام، امریکہ کو کثیر تعداد میں وینٹی لیٹرز کی سپلائی اور دنیا بھر کو فیس ماسکس کی بلا تعطل فراہمی بہت سے سوالات اور خدشات کو جنم دے رہی ہے۔

ایک اہم خدشہ اس وائرس کی ویکسین کی چند دنوں تک بھرپور لاؤنچنگ کا ہے جس کو دراصل اس وائرس کو پھیلانے کی وجہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔اس کی تیاری کا اعلان اور اس کی فراہمی بھی اندرون خانہ اقوام عالم میں ایک جنگی صورت حال کی طرح دیکھی جارہی ہے اور دیکھئے اب میں فاتح کوئی ایک قرار پاتا ہے یا کچھ بڑے مل کر اس کی بندر بانٹ کرتے ہیں۔کیونکہ یہ ویکسین اب کرہ ارض پر بسنے والے ہر سانس لیتے انسان کیلئے ضروری قرار دئیے جانے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

ایک اہم خدشہ اس کے کثیر المقاصد ایجنڈے کا بھی ہے جس میں مذہب خصوصا اسلام بھی نشانہ تھا اور ابتدائی مرحلے میں ہی مراکز اسلامیہ کو بند کروا دیا گیا اور دوسری چھوٹی چھوٹی عبادت گاہوں کے پاس انہیں کھلا رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ سکا۔حرم کو بند کرنے میں اتنی عجلت اور بے ترتیبی سے کام لیا گیا ہے کہ خدشات ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہے۔

حجاز مقدس میں عمرے کے احرام باندھ کر آنے والوں کو بھی حرم میں داخلے سے روک دیا گیا  اور وہ کئی دن حرم کے باہر احرام باندھ کر طواف کے منتظر رہے۔ حالانکہ وہاں پہنچ جانے والوں کیلئے ایک طبی معائنے کے بعد اس فرض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے تھی۔ رمضان المبارک میں وہاں ہونے والی تمام سرگرمیوں کو روک دینے کا اعلان اور حج کی ادائیگی کے حوالے سے حکومتوں کو تا حکم ثانی کسی بھی قسم کے معاہدے سے روک دیا گیا۔

اسلامی دنیا کے بنیادی مراکز سے اٹھنے والے قبل از وقت اقدامات انتہائی معنی خیز ہیں۔ایک بہت اہم خدشے کی گونج بلند ہو رہی ہے کہ برطانیہ اٹلی سپین اور دیگر یورپی ممالک میں مرنے والے طویل العمر لوگوں میں کثرت ایسے لوگوں کی ہے جن کا خرچ وہاں کی حکومت برداشت کر رہی تھی۔ان کے ماہانہ خرچ اور علاج معالجہ پر کثیر سرمایہ خرچ ہو رہا تھا جو معیشت پر بھاری بوجھ کی صورت سفید ہاتھی بن چکا تھا۔

سو اس کی آڑ میں حکومتوں نے اپنی معاشی نظام کواس غیر ضروری خرچ سے بچانے کیلئے دھڑا دھڑ ان کو اگلے جہان پہنچانے کا بھر پور انتظام کیا۔اگر یہ خدشہ کسی حد تک درست ہے تو معاشی اور مادیت پرست دنیا تاریخ انسانی کا مکروہ ترین عمل کر گزری ہے جس نے اب تک ہونے والے تمام رزائل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ایک اور اہم خدشہ یہ بھی گردش کر رہا ہے کہ اس وائرس کے ذریعے دنیا کے تمام ممالک، مذاہب اور تہذیبوں کوبیک وقت کنٹرول کرنے کا کامیاب تجربہ کرنا بھی مقصود تھا۔

جس میں نہ تو تہذیبی اقدار کی دیوار حائل ہوئی، نہ علاقائی معاملات آڑے آئے اور نہ مذہبی قوتیں اس کا راستہ روک سکیں۔ دین، مذہب،جغرافیائی سرحدیں، روایات، ہر چیز کو ایک ہی ایجنڈ ے کے تحت روند ڈالا گیا۔نفسیاتی اور ذہنی طور پر جکڑنے اور اپنے ایجنڈے پہ دنیا کو ایک کرنے کا حیرت انگیز اور کامیاب تجربہ کیا گیا۔خدشات اور سوالات کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے لیکن ایک بات تو بہر حال طے ہے اب ہمارے جسموں کوجدید ویکسین جذب کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

ہم نے بس آسمان کی طرف منہ کر کے اس کے قطرے زبان پرتحلیل کرنے ہیں۔ہم تو خیر ابھی تک یہ ہی نہیں سمجھ پائے تھے کہ پولیو کے بچوں کو معذوری سے بچانے والے قطرے کم وبیش ہر پاکستانی کو کسی نہ کسی بہانے سے کیوں پلادیئے گئے۔حج عمرہ اور انٹرنیشل سفر کرنے والے بچوں، جوانوں کے ساتھ ساتھ70 اور 80 سال کے بوڑھے تک معذوری سے بچنے کیلئے انہیں پی چکے ہیں تا کہ قبر کی دہلیز تک پہنچ جانے والی ٹانگیں بھی پولیو کی وجہ سے لڑکھڑائیں نہیں بلکہ توانا رہیں۔رہے نام اللہ کا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :