واقعہء کربلااورمقام تقوی

جمعہ 28 اگست 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

تقوی انسانی زندگی کی وہ صفت ہے جسے تمام انبیاء و رسل کی تعلیمات کا نچوڑ کہاجا سکتا ہے۔شریعت اسلامی میں یہ وسیع ترمفہوم کا حامل ہے۔ اسلامی ریاست کی روح تقوی و پرہیز گاری کی شان لئے ہوئے ہے اور یہ بہت قابل توجہ نکتہ ہے کہ اس کا تقاضا ایمان لانے کے بعد کیا جاتا ہے۔گویا تقوی ایمان کی کاملیت اور دین کی حقیقی روح کا نام ہے۔

اعمال و افعال میں اطاعت الٰہی کو مقدم رکھنا تقوی ہے۔ارتکاب گناہ سے بچنا اوررضائے الٰہی کے حصول کے لئے نیکی کرنا تقوی ہے۔ رذائل اخلاق سے منہ موڑنااور فضائل سے باطن کو آراستہ کرنے کا نام تقوی ہے۔اللہ سے ڈر کر اس کے احکام پر عمل کرنے پر نفس کومائل کرنا تقوی ہے۔ ان تمام چیزوں سے خود کو دورلینا جورضائے الٰہی سے دور لے جاتی ہوں اور ان امور و اعمال سے قریب ہو جانا جو اس کی رضا کو موجب ہوں تقوی ہے۔

(جاری ہے)

اللہ کو اس کی ذات و صفات میں یکتا جاننا، اس کی قائم کردہ حدود کی پاسداری کرنا،اور اس کی یاد دے غافل کر دینے والی ہر شے سے کنارہ کش ہو جانا حقیقت تقوی ہے۔تقوی میں انسانی عظمت کا راز پنہاں ہے، تقوی حقیقی فلاح کا ضامن ہے، تقرب الٰہی اور سکون و اطمینان قلب کا معتبرحوالہ ہے۔تقویت ایمان، تعمیر کردار، فکروتدبر، خوف خدا اورفکر آخرت تشکیل تقوی کی بنیادیں ہیں اور اسی طرح شرک سے اجتناب، نظام عبادات کا قیام، ذکر الٰہی میں مشغولیت، اصلاح معاشرہ، اتحاد امت، شعائر اللہ کی تعظیم، احترام رسول، قیام عدل تقوی کے تقاضے ہیں۔

قرآن کریم کی متعدد آیات تقوی کے نور کی طرف اہل ایمان کو لیجاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔سورہء آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اے ایمان والو تقوی اختیار کرو جیسا کہ تقوی کا حق ہے“۔ سورہء حجرات میں ارشاد فرمایا”اللہ کے نزدیک معزز ترین شخص وہ ہے جو تم میں سے پرہیز گار ہے“۔ سورہء توبہ میں ارشاد فرمایا”بے شک اللہ متقی لوگوں سے محبت کرتا ہے“۔

حضور دعافرماتے”اے اللہ میں تجھ سے ہدایت تقوی اور عفت و غنا کا سوال کرتا ہوں“۔واقعہء کربلا کی حقیقت اور غرض و غایت کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس دور کے حالات، واقعات اور وجوہات کو سامنے رکھنا ہو گا جو اس کا موجب بنے۔یہ معرکہ ہر گزکوئی انفرادی کشمکش نہیں تھی بلکہ مسلم معاشرے میں اسلامی روح اور اس کے مزاج اور نظام میں ہونے والی تبدیلی کے سبب تھی۔

دور رسالت مآب اور خلفائے راشدین کے قائم کردہ نظام ریاست و حکومت کی نظریاتی سرحدوں پرحملہ آور ہونے والوں کے خلاف جہاد تھا۔اسلامی ریاست کے دستور اور مقصدیت کی تبدیلی کے خلاف حق کی آواز تھی۔ اس نازک مرحلے پر خانوادہء رسول سے بڑھ کر تقوی و طہارت اور روح دین کو سمجھنے والا کون ہو سکتا تھا جنہوں نے اپنی لازوال استقامت ، بے مثال صبر اور باکمال جرات سے ایک ایسی تاریخ رقم کی جس کے نقوش ان مٹ ہیں۔

میدان کربلا میں امام عالی مقام کے خطبات تقوی و استقامت کی بہترین مثال ہیں۔اس نازک ترین لمحے پر بھی جب زندگی بس ایک قدم کے فاصلے پر تھی امام نے بتا دیا کہ جب حق وباطل اور خیر و شر کا ایسا مرحلہ پیش آ جائے تو اس لمحے رضائے الٰہی کا پیرہن ہی بہترین لباس ہوتا ہے ۔ اس نورانی سفر کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ شہدائے کربلا تقوی کے اس مقام پر مسند نشین تھے جہاں سے رضائے الٰہی کی کرنیں مسلسل جمال افروز ہو رہی تھیں۔

ان کے کردار کی روشنی سے آج تک تاریک دلوں کوتابانی عطا ہو رہی ہے۔انہوں نے انسانیت کو یہ راستہ دکھا دیا کہ راہ حق وصداقت کے مسافر نتائج کی فکر سے بے نیاز ہوکر یہ منزل طے کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے لہو سے لکیر کھینچ کر قیامت تک آنے والی انسانیت کو یہ شعور عطا کر دیا کہ ظلم کا صاحب شوکت اور بااخیتار ہونا اس کی حقانیت اور سچائی کی سند نہیں ہو سکتی۔

ان مردان حق شناس نے یہ تعلیم دی کہ وقتی مصلحتوں کی تاویلوں پر تقوی کا لبادہ اوڑھنے والے کان نہیں دھرتے۔امام حسین کی دوربیں اور نور آثار نگاہیں اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج کے نظام میں ایک بڑے شگاف کو نمایاں ہوتا دیکھ رہی تھیں جس کے آگے انہیں بند باندھنے کا الٰہی فریضہ سونپا گیا تھا۔اس معرکے نے فتح وشکست، طاقت وکمزوری اورحیات و موت کے پیمانے بدل کر رکھ دیئے اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ طاقت دراصل طاقت نہیں ہوتی بلکہ حق اور سچ کے لئے کھڑے ہو جانا اصل طاقت ہوتی ہے۔

اس جنگمیں زندہ رہ جانے والے حقیقت میں مردہ ہو گئے اور حق کی خاطر شہید ہو جانے والے ہر روز نئی آب و تاب کے ساتھ زندہ ہو رہے ہیں۔معرکہء کرب و بلا میں مسند تقوی کے صدر نشیں امام عالی مقام کے ان اقوال کی دلآویز خوشبو کو محسوس کیجئے اور خود کو تقوی کے راستے کا مسافر بنا لیجئے کی یہی ایمان کی کاملیت اور دین کی حقیقی روح ہے۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”فقیر وہ ہے جو حرص کا اسیر ہے اور امیر وہ ہے جو مستغنی ہے“۔

”اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہیں خیر سے یاد کریں اور تمہیں عظمت حاصل ہو تو نیک اعمال اور جود و سخا اس کا بہترین ذریعہ ہیں“۔”سب سے بڑا فیاض وہ ہے جو ایسے شخص سے حسن سلوک کرے جس سے اسے کوئی امید نہ ہو“۔ ”بہترین صلہ رحمی یہ ہے کہ قطع رحمی کرنے والوں سے بھی صلہ رحمی کرے“۔”نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دو“۔”سب سے زیادہ سکون اطاعت الٰہی میں خوش رہنے سے حاصل ہوتا ہے“۔”جو صلہء رحمی سے محروم ہو ا وہ انسانیت سے محروم ہو گیا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :