ٹیلنٹ اور مینجمنٹ کی لڑائی۔ہماراقومی المیہ

جمعرات 24 دسمبر 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

پاکستان کرکٹ کے ہونہار فاسٹ باولر محمد عامر نے ۲۸ سال کی عمر میں انٹرنیشنل کرکٹ سے استعفیٰ دے کر شائقین کو حیران کر دیا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں عہدوں کو عزت سے  چھوڑنے کا رواج ہی نہیں ہے ۔ابھی بھی ٹیم میں ایسے بزرگ نوجوان موجود ہیں جنہیں اب صرف کوئی نہ کوئی بے عزتی کا بہانہ چاہئے جو ابھی تک میسر نہیں آرہا اور وہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر مسلسل جتے ہوئے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں دو طرح کے لوگ عمومی طور پر پائے جاتےہیں۔ویسے ان  کی تعداد دو سے زیادہ بھی ہے لیکن یہاں ہم عمومی ذکر  پر ہی اکتفا کریں گے ۔پہلی قسم  تو اپنے شعبے میں محنت کرکے مقام بنانے والوں کی ہے  اور دوسری قسم چاپلوس اور خوشامد پسندی سے مقام حاصل  کرنے والوں کی ہے ۔

(جاری ہے)

دوسری قسم کےلوگوں میں  ٹیلنٹ تو اس معیار کا نہیں ہوتا لیکن ان کے اندر جو خوبی پائی جاتی ہے اس کی ضرورت سے ہمارا معاشرہ بھرا پڑا ہے۔

خوشامد یوں اور جی حضوریوں کی فوج ظفر موج آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں غالب  دکھائی دے گی۔اس کا دائرہ سیاست سے لے کرزندگی کے ہر شعبے میں زہر کی طرح سرائیت کیا ہوا ہے جس میں سب سے خطرناک استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی ہے ۔یہاں بھی باصلاحیت شاگرد اپنے اندر وہ وصف پیدا نہ کرنے کی بنا پرجس ذہنی اور فکری اذیت سے دوچار ہوتے ہیں اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اس موضوع پہ پھر کبھی تفصیل سے بات ہو گی ۔

پہلی قسم کے لوگ فطری طور پہ قدرت کی عطا کردہ صلاحیت کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کی صلاحیت کے معیار پہ پرکھا جائے  اور ان لوگوں کے ساتھ نہ تولا جائے جو کسی اور ذریعے سے اس مقام تک آئے ہیں لیکن  ہمارا قومی المیہ ہے کہ اس قدرتی صلاحیتوں کے حامل لوگوں کو ایسے لوگوں کے زیر دست رہ کے کام کرنا ہوتا ہے جو  واقعتاًاس کے اہل نہیں ہوتے۔

کرکٹ بورڈ زیادہ تر سیاسی وابستگیوں اور چور راہداریوں کے ذریعے پروان  چڑھنے والے لوگوں کی آماجگاہ ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ موجودہ سربراہ مملکت اسی کھیل سے عزت و شہرت حاصل کر کے  اس مقام تک پہنچے ہیں جس سے لگتا تھا کہ وہ اس میں انقلابی تبدیلیاں کر کے اس کا قبلہ درست کریں گے لیکن ہنوز دلی دور است۔باصلاحیت لوگوں میں بہت بڑی خامی جذباتیت ہوتی ہے جس پر ان کا اختیار نہیں ہوتا یہ ایک فطری عمل ہے اور یہی جگہ جگہ ان کے راستے کا پتھر بنی رہتی ہے۔

عبدالحمید عدم ؔنے ایسے ہی لوگوں کے حوالے سے کہتا تھا :۔
عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے  جلد باز ہوتے ہیں
افسوس اس بات کا ہے کہ اس کی بات کو سنا نہیں گیا اور اس کے فیصلے کو ذاتی معاملہ کہہ کر خیر مقدم کیا گیا ہے جس کے لئے اسے ذہنی طور پر اس مقام تک لانے کیلئے کافی محنت کی گئی ۔

اگر آپ میں سے کسی نے اس کی چند منٹ کی وہ گفتگو سنی ہے جس میں وہ اس ساری صورتحال کی وجہ بیان کر رہا ہے تو حقیقت حال کھل کر سامنے آ جاتی ہے  کہ مینجمنٹ کے مراعات یافتہ ٹولے کو ایک باصلاحیت کھلاڑی پر کئے گئے احسان  کے بوجھ تلے دبا کر  مسلسل  جی حضوری درکار ہے جو اس سے اب نہیں ہو پا رہی۔ ہمارے ہاں کھلاڑی کی پرفارمنس کو ایک دو میچز یا پھر زیادہ سے زیادہ  ایک سیریز سے ماپا جاتا ہے ۔

مجھے یاد ہے بھارت کی طرف سے ریکارڈ ساز اننگز کھیلنے والے سچن ٹنڈولکر ایک طویل عرصے تک پرفارم نہیں کر پائے تھے مگر اس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے نہ وہاں کے میڈیا اور نہ ان کی مینجمنٹ نے اسے ذہنی کوفت سے دوچار کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک عرصے بعد جب وہ ردھم میں آیا تو اس نے ریکارڈ پر ریکارڈ بنائے۔اسی طرح کی صورت حال سے برائن لارا بھی گزرے تھے لیکن ان کی صلاحیتوں سے آگاہ انتظامیہ نے انہیں فارم میں آنے کا پورا موقع دیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس کے بیٹ سے کیسی کیسی جادوئی اننگز نکلیں۔

اس طرح کی بہت سی مثالیں انٹرنیشنل کرکٹ کے ان قدرتی صلاحیت کے حامل کھلاڑیوں کی دی جاسکتی ہیں لیکن ہمارے ہاں صورتحال بالکل مختلف ہے۔یہاں ہر کھلاڑی کے سر پر ہر میچ میں پرفارمنس کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے اور وہ اسی اذیت  کے بوجھ کے ساتھ گراؤنڈ  میں اترتا ہے ۔ کرکٹ بورڈ کو  ایسے باصلاحیت کھلاڑیوں کو سب سے پہلے ذہنی اذیت سے نکالنے کی ضرورت ہے۔

ہر ٹیم میں کچھ قدرتی صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی موجود ہوتے ہیں ان  سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور ان کو خوشامدیوں اور جی حضوریوں سے الگ ڈیل کرنے کی ضرورت  ہوتی ہے۔محمد عامر بھی ایسا ہی کھلاڑی ہے جو کسی بھی وقت میچ کا پانسا پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی گواہ اس کے کئی شاندار اور حیران کن سپیل ہیں ۔اس کی پرفارمنس  کے راستے میں دراصل وہ  اذیت اور  مسلسل روا رکھے جانے والی زیادتی  حائل  ہے جس کا کرب اس کے چہرے سے نمایاں ہے۔

محمد عامر  قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہمارا اثاثہ ہے۔ اگر عرصہ دراز سے اپنی ختم ہو جانے والی کرکٹ کو دھکا لگانے والے لوگ ٹیم میں موجود ہیں تو اس نوجوان کی کرکٹ تو ابھی باقی ہے۔ آخر میں ان پرانے کھلاڑیوں کے یو ٹیوب چینلز پر کئے گئے تبصروں کا حال بھی ان پرانے پہلوانوں جیسا ہی  ہے جوتازہ  دم پہلوانوں کی کشتی میں باہر سے داؤ پیچ  بتا بتا کے گلا بٹھا لینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ۔ہمارا یہ المیہ بھی دیکھئے کہ یہ سینئرز اس نوجوان سے بات کرنے کی بجائے  اپنے تبصروں کے چورن بیچ رہے ہیں۔جس  انہیں اور مینجمنٹ کوعامر  کی طرف سے یہی کہا جا سکتا ہے:
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا  ہوتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :