مجلس ترقی ادب میں نئی تقرری

پیر 22 مارچ 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

مجلس ترقی ادب لاہور میں پہلی بار جناب حفیظ تائب ؒ کے ساتھ اس وقت آنا ہوا جب جناب احمد ندیم قاسمی مسند نشین تھے۔ان کے بعد جناب شہزاد احمد  مرحوم کو کسی نہ کسی تقریب کی دعوت دینے کے لئے آنا ہوتا رہا اور ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کو بھی ایک کانفرنس کی دعوت دینے کے لئے حاضر ہوا تھا۔نئے تعینات ہونے والے ڈائریکٹر محترم منصور آفاق صاحب سے کبھی ملاقات  تونہیں ہوئی لیکن ان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گرد ش کرتی خبریں اکثر اوقات نظر سے گزرتی رہی ہیں  ۔

ممکن ہے ان کے عقیدے کے حوالے سے  عرصہ دراز سے پھیلائی جانے والی باتیں درست نہ ہوں، ممکن ہے برطانوی شہریت کے حصول کے لئے ان کے جمع کروائے گئے کاغذات  میں مذہبی شناخت کے حوالے سے ہونے والی باتیں بھی محض افواہیں ہوں، ممکن ہے ان کی شعری لفظیات کے حوالے سے تختۂ مشق بننے والی مباحث ان کے مخالفین کی ہی کارستانی ہو، ممکن ہے کہ مجلس ترقی ادب میں ان کو سونپی گئی سربراہی کے حصول کے لئے ان کی کوئی ذاتی دلچسپی  اور تگ و دو کا عمل دخل نہ ہو، ممکن ہے حکومت وقت  نے ان کی صلاحیتوں  کو دیکھتے ہوئے خود ان  سے اس ادارے کی سربراہی کی درخواست کی ہو ۔

(جاری ہے)

ظا ہر ہے کہ ان سب باتوں کے متعلق جب تک حقیقی علم نہ ہو کوئی بات کرنا مناسب نہیں ہے لیکن اگر بات اخلاقیات ، میرٹ اور قانون کی جائے تو بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں ۔میری کسی بھی طور ان سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں لیکن ان کی تعیناتی کے طریقہ کار اور اس حوالے سے ممتاز اہل قلم کے کالم اور تحریروں نے خودبہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر اداروں میں تقرریاں معمول کی بات ہے جو ہر  حکومت  میں ہوتی ہیں لیکن اس میں بھی کوئی نہ کوئی ضابطہ اور طریقہ ٔ کار ضرور اختیار کیا جاتا ہے۔

مجلس ترقی ادب کے بائی لاز میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ اس کے ڈائریکٹر کی تعیناتی اس کے بورڈ آف گورنر کی سفارش پر کی جائے گی اور مزے کی بات کہ اس ادارے کا یہ قانونی پینل ۷ نومبر ۲۰۲۰ کو ختم ہو گیا تھا اور نئے نام متعلقہ حکام کو بھجوا ئے جا چکے ہیں جن کی ابھی تک منظوری نہیں دی جا سکی۔سابقہ گورننگ باڈی کے نام دیکھ کر ہی آپ کو اس ادارے کے علمی و ادبی وقار کا اندازہ ہوجائے گا جن میں ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، سلیم الرحمان، عطا الحق قاسمی،امجد اسلا م امجد، سجاد میر، رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر زاہد منیر عامر، حمیرہ ارشاد، ڈاکٹر عبدالخالق، شعیب بن عزیز جیسے لوگ شامل تھے جن کی سفارشات پر ڈاکٹر تحسین فراقی اس مسند پر موجود تھے۔

اب  جب  کہ گورننگ باڈی ہی موجود نہیں تو تقرری کیسے قانونی ہو سکتی ہے۔ قانونی طور پہ  سابقہ سربراہ کا دورانیہ ابھی مارچ ۲۰۲۲ تک  باقی تھا جبکہ انہیں کوئی بھی معقول وجہ بتائے بغیر عہدے سے ہٹانا مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ  ہماری سیاسی قیادت کے  میرٹ کے حوالے سے کئے جانے والے بلند و بانگ دعوؤں کی قلعی کھول رہا ہے۔اخلاقی اعتبار سے بھی دیکھا جائے  تو ایک صاحب علم شخصیت جس کی زندگی درس و تدریس میں گزری ہو، اردو دنیا میں جن کا نام احترام اور حوالے کے طور پر لیا جاتا ہو اور جن کو ادارے کے بائی لاز اور قوانین کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مسند پر بٹھایا گیا ہو انہیں محض کسی کی ذاتی خواہش، سیاسی سفارش ، درباری کالم نگاری  کے انعام اور مطلق العنانی سوچ کے تحت گھر بھیج دیا جائے کسی بھی صورت پسندیدہ نہیں کہا جا سکتا۔

کم از کم ان کے عہدے کی مدت پوری ہونے کا انتظار ہی کر لیا جاتا تو ان کے حوالے سے علمی ادبی حلقوں میں پیدا ہونے والی تشویش یہ صورت حال اختیار نہ کرتی۔میرٹ کی بات کی جائے تو ایک طرف شعبہ اردو کی چھبیس سالہ جامعاتی درس و تدریس، ان کی سربراہی میں مکمل کئے جانے والے درجنوں تحقیقی مقالہ جات، جاپان اور تہران کی یونیورسٹیوں  میں بطور استاد خدمات کا قابل فخر اعزاز، لاتعدادقومی و بین الاقوامی کانفرنسز میں بطور تحقیقی مقالہ نگار شرکت، اردو زبان و ادب کے لکھے جانے والے ڈیڑھ سو سے زائد مقالہ جات   و کتب میں ان کے تحقیقی کام کے حوالے    اور مجلس ترقی  ادب میں ان کی سربراہی میں ہونے والا وقیع کا م ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب   کی شریف النفسی کو قدرے آسان ہدف سمجھتےہوئےاس ادارے کا انتخاب کیا گیا  کیونکہ وہ اب عمر کے اس حصے میں ہیں جب ایسی غیر اخلاقی حرکتوں پر خاموشی کو ترجیح دینا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ میری نظر میں ڈاکٹر صاحب کو اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ اس قومی ادبی ادارے کی بقا اور مستقبل میں اس کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کا دروازہ بند کرنے کے لئے عدالتی آپشن ضرور استعمال کرکے  پیدا ہونے والے بنیادی سوالات پر اعلیٰ حکام سے ضرور جواب طلب کرنا چاہئے کہ ادارے کے آئین کی پامالی ، رولز اینڈ ریگولیشن کی واضح خلاف ورزی، موجودہ تعیناتی کا تعلیمی اور انتظامی تجربہ، گورننگ باڈی کا موجود نہ ہونا، بورڈز آف گورنرز کی عدم موجودگی میں  تعیناتی اور ان کو ابھی تک سبکدوشی کی وجوہات سے عدم آگاہی جیسے سوالات  کے جواب ضرور سامنے لانے  چاہئیں ۔

ورنہ دوسری صورت میں کہا جاتا ہے کہ کسی مرد کی  دوسری بیوی کے آنے پر پہلی  بیوی کے دل پر خوب نشتر چلتے ہیں   لیکن وہی مرد جب تیسری شادی کرتا ہے  تو پہلی کا دل بہت تسکین پاتا ہے ۔سو ڈاکٹر صاحب بھی یا تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں یا پھر تھوڑا انتظار کریں بس تھوڑا انتظار جب موجودہ سربراہ کے پاس بھی کوئی چائے کی چسکی لیتے ہوئے اپنی تعیناتی کا خط نکالے اور کہے کہ جناب اب آپ کی جگہ مجھے اس سیٹ پر بیٹھنے کے لئے بھیجا گیا ہے ۔رہے نام اللہ کا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :