"درسِ کلام اللہ" کی تقریب پذیرائی

پیر 26 جولائی 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

دنیا بھر کے علمی خزانوں میں کسی کتاب کی مختلف جہات اور اس کی جزئیات پر سب سے زیادہ کام ہوا ہے تو وہ قرآن حکیم ہے۔صدیوں سے جاری اس خزینۂ علم و معرفت میں آج بھی کسی نئے پہلو کا سامنے آ جانا اس کتاب زندہ کا معجزہ ہے۔ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ اسلامی فکر و تہذیب کے استاد ڈاکٹر محمد طاہر مصطفے کو اللہ کریم نے ایک منفرد اعزاز سے نوازا ہےکہ انہیں قرآن کریم کا غیر منقوط تفسیری ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔

دی پوئیٹ ریسٹورنٹ گریٹر اقبال پارک  لاہور کے خوبصورت ہال میں روزنامہ جنگ مذہبی ونگ  اور الواعظ سرٹیفیکیشن اینڈ ٹریننگ سروسز کے زیر اہتمام درس کلام اللہ کی تقریب پذیرائی کی شاندار تقریب منعقد ہوئی۔میزبانی کے فرائض ڈاکٹر حافظ ساجد اقبال نے ادا کئے۔

(جاری ہے)

تلاوت کلام پاک کی سعادت  قاری خالد عثمان علوی نے حاصل کی اور صاحب کتاب کی غیر منقوط نعت کی سعادت  راقم کے حصے میں آئی۔

روزنامہ جنگ کی طرف سے تقریب کے نگران افتخار احمد سعید نے جانے کس رو میں ایسی بات کہی جسے حاصل محفل کہنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب نے  حضور کے اسمائے گرامی  کے حوالے سے جو کتاب مرتب کی اس کی  برکت سے اللہ نے اپنی بے مثال کتاب کا ایسا منفرد کام  ان سے لیا ہے۔ڈاکٹر حافظ ساجد انور نے کہا کہ تاریخ میں غیر منقوط کاوشیں مختصر انداز سے تو ملتی ہے لیکن مکمل کام  پہلی با ر سامنے آیا ہے جس پر جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔

سیرت ایوارڈ یافتہ محقق ڈاکٹر حافظ سعد اللہ  نے کہا کہ یہ بہت مبارک کام ہے جو اللہ کی خاص مدد اور الہام کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ اس کام کو کرتے ہوئے انہیں قرآن کریم میں غور و فکر کرنے کا کتنا وقت میسر آیا ہو گا ۔میری گزارش ہے کہ چونکہ یہ ایک انفرادی کاوش ہے اور اب  منظر عام پر بھی آ چکی ہے اور یہ کلام اللہ کا معاملہ ہے اس لئے اب فاضل ارکان پر مشتمل ایک معتبر پینل بنایا جائے جو اس ترجمے میں موجود معنوی اسقام پر نظر ثانی کریں۔

ڈاکٹر خالد عرفان ڈھلوں نے کہا کہ میں تو ابراہیم ادھم ؒ کی طرح بس یہ دعا کرتا ہوں کہ میرا نام ان لوگوں کی فہرست میں لکھا جائے  جو  اس عظیم کام کرنے والے ڈاکٹر طاہر مصطفےٰ سے محبت کرتے ہیں۔ڈاکٹر مفتی محمد کریم نے کہا کہ اس کی اہمیت تفسیری ادب کے ساتھ ساتھ  اردو ادب کی شان میں بھی اضافے کا سبب  ہے۔آنے والا زمانہ اس صنف کی تعمیر کا ہو گا جس سے یہ کام مزید آگے بڑھے گا۔

چیف کلیکٹر کسٹمز  محمد آصف جاہ نے کہا  کہ اس تقریب میں آنا ہی میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔یہ ایک انفرادی اہمیت کی حامل کاوش ہے۔ اللہ اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین۔نفاذ اردو کی روح رواں فاطمہ قمر نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ  کام کر کے اردو کی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل کر لیا ہے۔اس معاملے میں انہوں نے غیر معمولی لگن اور جذبے سے کام کیا ہے۔

ہم نے نفاذِ اردو کے تحت منعقد ہونے والی کانفرنس میں دس شخصیات  کا چناؤ کیا ہے جن میں ڈاکٹر صاحب کا نام بھی شامل ہے۔ ان کو اگست میں ہونے والی تقریب میں "حاصل  زندگی " ایوارڈ  دیا جائے گا ۔ ڈی۔جی   یو۔ایم۔ٹی جناب عابد ایچ خان شیروانی نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی کاوش ہے جو ان کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قدرت کی طرف سے ان کا چناؤ بھی ہے۔یقینا اس عمل میں کوئی غیبی قوت ان کے شامل حال رہی ہو گی۔

۱۴۲ٍ۱ صفحات پر پھیلے ہو ئے لاکھوں غیر منقوط الفاظ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ بہت ہی اچھا ہوتا اگر وہ دعائے ختم قرآن اور اپنے اظہار خیال کو  بھی غیر منقوط ہی تحریر کرتے ۔آستانہ عالیہ سندر شریف کے سجادہ نشین سید حبیب عرفانی نے کہا کہ قرآن کا ترجمہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔مترجمین نے نقطوں والے الفاظ کو بھی استعمال کرتے ہوئے جگہ جگہ بریکٹ کا استعمال کر کے اپنی عاجزی کا اظہار کیا ہے اور غیر منقوط میں معاملہ تو اور بھی مشکل ہوجا تا ہے۔

اپنی تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اس  کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ میڈیا کی معروف شخصیت محسن بھٹی نے کہا  کہ یہاں موجود افراد میں میں سب سے کم علم شخص ہوں۔یہ کام اتنا بڑا ہے کہ میں اس پر بات نہیں کر سکتا۔آج یہاں آ کر میں اپنے علم میں اضافہ لے کر جا رہا ہوں۔رکن اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری نے کہا کہ درس کلام اللہ اردو زبان میں  کیا جانے والا ایسا پہلا مکمل  کام ہے۔

ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ بچے کے نام کے اثرات اس کی شخصیت پر بھی ہوتے ہیں۔میرے نزدیک ان کے نام میں مصطفےٰ اور طاہر کی برکتیں شامل حال ہیں۔صرف اس کا عنوان سوچنے میں کتنا وقت لگا ہو گا۔ہر کام میں بہتری کی گنجائش بہر حال موجود رہتی ہے۔چئیرمین اخوت ڈاکٹر امجد ثاقب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کام پر عقل حیران و ششدر ہے۔لوگ چلتے تو بہت ہیں لیکن منزل کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

قرآن کی آیات کو سمجھنا اور اس کے معانی کی وسعت  کو پانا اور کسی دوسری زبان میں بیان کرنا اور غیر منقوط ڈھونڈھنا جو خلاف ادب بھی نہ ہوں یقینا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔یہ نام مصطفے سے محبت کا فیض تھا جو ان کو ملا ہے۔ڈائریکٹر علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب ڈاکٹر محمد سعد صدیقی گویا ہوئے کہ یہ کام علم لدنی اور القائے ربانی کی صورت سامنے آیا ہے۔

صاحبان علم یہ بات جانتے ہیں کہ غیر منقوط حرف کی طاقت منقوط سے زیادہ ہوتی ہے۔غیر منقوط لفظ کو اپنی پہچان کے لئے نقطے کی ضرورت نہیں ہوتی۔انہوں نے ان طاقتور الفاظ سے ایک شاہکار تخلیق کیا ہے جس کا اصل اجر تو اللہ ہی کے پاس ہے۔منہاج القرآن یونیورسٹی سے ڈاکٹر اکرم رانا نے کہا کہ قرآن کریم پر کام کرنا بہت سعادت کی بات ہے۔اس تقریب میں ہمارا نام لکھ دیا گیا یہی بڑی سعادت کی بات ہے۔

جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا کہ عربی زبان میں وسعت اور جامعیت سے زیادہ کوئی اور زبان قرآن کی روح کے مطابق ترجمے کا حق ادا نہیں کر سکتی۔جو بھی قرآن کریم پر غور و فکر کرتا ہے اللہ اس کے لئے نئے راستے کھول دیتا ہے۔یہ ایک تاریخ ساز کا م ہے۔اردو زبان میں ویسے ہی وسعت کم ہے اور اس میں بھی غیر منقوط کی قید لگا لینا بہت مشکل کام ہے۔

اللہ نے انہیں عظیم نعمت سے  مالا مال کیا ہے۔ درس کلام اللہ کے مترجم ڈاکٹر محمد طاہر مصطفےٰ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ ترجمہ ہے بلکہ یہ ترجمانی ہے اللہ کے کلام کی روح کو کسی بھی صورت  ا نسانی بساط میں سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اس طرح کے کام کئے نہیں جاتے بلکہ لئے جاتے ہیں۔غیر منقوط الفاظ کے ترجمہ ہونے سے  قیامت تک ایک نئے باب کا اضافہ ہوا  ہے۔

غیر مسلم ضرور سوچیں گے کہ مسلمان اپنے رب کے کلام سے کتنی محبت کرتے ہیں۔صرف ۱۸ حروف میں مکمل تفسیری ترجمہ انسانی نہیں بلکہ الہامی کام ہے۔ایک ایک لفظ کی تلاش میں بعض اوقات  بائیس ۲۲ دن بھی لگے ہیں۔دراصل یہ ترجمہ میری بشری  لالچ تھی۔ میں اللہ کے حضور کسی خاص حوالے سے پیش ہونا چاہتا  تھا ۔میرے والد کہا کرتے تھے کہ کوئی بڑا کام کرنا ہے۔

میں نے غلاف کعبہ کو تھام کے دعا کی تھی کہ مولا مجھ سے کوئی منفرد کام لے ۔یہ  کام مکمل  کرنے کے بعد خود آٹھ سال تک  اس  پر نظر ثانی کی ہے اور پھر جید علماء سے مکمل وقت نہ ملنے پر حافظ عدنان بشیر جو نوجوان سکالر اور بہت باصلاحیت ہیں نے اسے حرف بہ حرف پڑھا ہے۔ ۱۸ حروف کے کوزے میں سمندر بند کر دیا ہے۔یہ اعزاز میرے ادارے کا بھی اعزاز ہے۔

حکومت کو چاہئے تھا کہ اس کام کو اپنی طرف سے دنیا کے سفیروں کا پیش کرنے کا اہتمام کرتے کہ ہمارے ملک سے ایسا کام کیا گیا ہے جو دنیا بھر میں ممتاز اور منفرد ہے۔صوبائی وزیر اوقاف و مذہبی امور پنجاب سید سعید الحسن شاہ تقریب کے آخر میں تشریف لائے اور کہا کہ یہ ایک تاریخی اور عظیم کارنامہ ہے۔عربی  میں کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ کا کلام کلاموں کا شہنشاہ ہوتا ہے۔

صنعت غیر منقوط میں یہ ایک غیر معمولی کاوش ہے۔محکمہ اوقاف و مذہبی امور ہمیشہ ایسے کاموں کی سرپرستی جاری رکھے گا۔تقریب کے صدر عامر رفیق قریشی چیئرمین پاکستان ریسٹورنٹ یونٹی ایسوسی ایشن نے آخر میں کہا کہ اس محفل کا یہاں میرے ہاں انعقاد بہت سعادت  اور اعزاز کی بات ہے۔ان صاحب علم قد آور شخصیات کےد رمیان بیٹھنا اپنے الئے اعزاز سمجھتا ہوں۔

ایسے کام لگن محنت کے ساتھ ساتھ عشق سے پایہء تکمیل تک پہنچتے ہیں۔آج کی تقریب میں مجھ سمیت جتنے لوگ حاضر رہے سب نے اپنے نامہء اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کیا ہے۔بہت جلد ہم ان کے اعزاز میں ایک بڑی تقریب منعقد کریں گے۔آخر میں مہمانوں میں یادگاری شیلڈز تقسیم کی گئیں اوراختتام پر مفتی انتخاب  عالم نوری نےنے دعا کروائی۔مہمانوں کے لئے پرتکلف ظہرانے کا انتظام کیا گیا تھا جو عامر رفیق قریشی کے حسن انتظام اور  اعلیٰ ذوق کا آئینہ دار تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :