وطن کا شہزادہ بیٹا۔۔سپاہی محمد جواد شاھد شہید

جمعہ 9 اپریل 2021

Shafaq Kazmi

شفق کاظمی

وہ شخص اپنی جوانی دان کرگیا۔
وہ قوم کے مستقبل کے واسطے لہو لہو قربان کرگیا۔
وہ شہید بھی ظلم کے خلاف بغاوت کرتے کرتے ہوا۔
وہ کم جیا، مگر سر اٹھا کے جیا،
بلا کا جذبہ بلا کی ہمت تھی،
آنکھوں میں حب الوطنی کی چمک تھی۔
دشمنو کے پرخچے اڑانے کی طاقت تھی،
وہ ہر اس پل لڑا جب قوم کو اس کی ضرورت تھی،
وہ دھرتی ماں کا بیٹا،
وہ ماں کا لخت جگر ،
وہ باپ کے کاندھوں کا سہارا،
وہ بہن کا ہیرو،
وہ قوم کا سرمایہ،
وہ قوم کے مستقبل کے واسطے لہو لہو قربان کرگیا،
وہ اپنی جوانی دان کرگیا،
وہ اپنی جوانی دان کرگیا،
سپاہی محمد جواد شاھد شہید وطن کے ایک بہادر بیٹے تھے جنہوں نے کٹھن حالات کا سامنا کرنے کے باوجود کبھی ہمت نہیں ہاری۔

(جاری ہے)

.....حب الوطنی کا جذبہ ہی ایسا ہوتا ہے۔۔۔جو کبھی ہمت نہیں ہارنے دیتا۔۔۔ یہ جذبہ ڈٹ کے مقابلہ کرنے اور ظلم کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔
سپاہی محمد جواد تیس جولائی 1998 کو لکھنوال میں پیدا ہوئے۔۔آپ چھ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول سے کی۔اس کے بعد آپ نے زمیندار پوسٹ گریجویٹ کالج سے انٹر کیا، سپاہی محمد جواد کافی ذھین اور ایماندار تھے۔

۔۔سپاہی محمد جواد کے والد صاحب نیوی میں تھے۔۔ان کی ذہانت کو پرکھتے ہوئے ان کے والد صاحب کی خواہش تھی سپاہی محمد جواد کو وکیل بنانے کی۔۔۔۔مگر انہوں نے اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔۔۔۔۔ان کی خواہش تھی محافظوں کی صفت میں شامل ہوکر دشمنو کو کیفر کردار تک پہنچانے کی۔۔۔انہوں نے اسی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک فضائیہ میں جانے کا فیصلہ کیا مگر شاید قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔

۔۔تین بار ٹیسٹ دینے کے باوجود وہ کامیاب نا ہوسکے۔۔۔۔مگر پھر بھی انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔۔۔۔یہ حب الوطنی کا جذبہ ہی تھا جو ہمت ہارنے نہیں دے رہا تھا۔۔۔انہوں نے پاک آرمی میں جانے کا فیصلہ کیا۔۔انہوں نے 2018 میں آرمی میں اپلائی کیا۔اور خوش قسمتی سے وہ ہر امتحان میں کامیاب ہوئے۔۔۔اللہ تعالیٰ نے انہیں سپاہی جیسے عظیم رتبے پر فائز کیا۔

۔۔
9 ماہ کی ٹریننگ کے بعد ان کی پوسٹنگ سیاچن میں ہونی تھی۔۔۔جبکہ ان کی خواہش تھی ان کی پوسٹنگ کشمیر کی طرف ہو مگر صوبیدار نے ان کی پوسٹنگ ان کے گاؤں کے قریب کسوکی میں کردی۔۔۔۔

ایل او سی پر حالات کافی خراب تھے۔۔۔۔۔تایا ابو کی وفات کی خبر سننے کے باوجود بھی وہ ان کی میت کو کاندھا دینے نہیں جا سکے۔

۔۔۔کیونکہ اس وقت وطن کو ان کی ضرورت تھی۔۔۔۔چار پانچ ماہ بارڈر پر گزارنے کے بعد آپ اپنی شہادت سے قبل اپنے گھر آئے اپنے اہلِ خانہ سے ملے ان کے ساتھ عید بھی منائی۔بہنوں کو علم نہیں تھا یہ آخری بار بھائی سے لی گئی عیدی ہے ماں کو علم نہیں تھا کہ وہ رخصت کرتے وقت آخری بار اپنے بیٹے کا ماتھا چوم رہی ہیں۔
چھٹیوں کے بعد سپاہی محمد جواد شاھد کو وہ عظیم رتبہ ملا جس کی خواہش ہر محب وطن ہر فوجی جوان کو ہوتی ہے۔

۔۔اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت جیسے عظیم رتبے پر فائز کردیا تھا۔۔۔۔ان کی شہادت دولت نگر کے قریب آرمی سکیم کے دوران ہینڈ گرنیڈ کے ہیٹ ہونے سے ہوئی پچیس نومبر کو سپاہی محمد جواد سی ایم ایچ کھاریاں میں منتقل ہوئے۔ حالت کافی نازک تھی مگر ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق وہ جلد ریکور ہوجائیں گے۔۔۔لیکن تین دن بعد انہوں نے جام شہادت نوش کی۔۔۔
پھر پوری شان سے سبز ہلالی پرچم میں لپٹ کر آئے۔

ان کا جذبہ عشق چیخ چیخ کر اعلان کررہا تھا اے وطن تیرے بیٹے نے تیرے عشق میں اپنی جان نچھاور کردی۔۔
وہ قوم کے مستقبل کی خاطر اپنا آج قربان کرتے ہوئے دھرتی ماں کی گود میں سو گئے۔۔
بے شک شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔۔اللہ تعالیٰ اس وطن کے تمام شہداء کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
ان راہوں کو بھی سلام جہاں سے میرے وطن کے محافظ گزرتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :