
کووڈ19 اور انسانیت کی بقا
پیر 6 اپریل 2020

شاہد افراز خان
تشویشناک بات یہ ہے کہ ماسوائے چین ، پاکستان سمیت دیگر دنیا میں ہر گزرتے روز متاثرہ مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ابھی یہ تعداد مزید بڑھے گی۔
(جاری ہے)
عالمی سطح پر ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں صحت عامہ کے تحفظ کے لیے کی جانے والی تیاریوں اور اقدامات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔مغربی ترقی یافتہ ممالک جو تمام شعبہ جات میں اپنی ترقی پر نازاں تھے ،اس وقت نوول کورونا وائرس کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔
یورپی ممالک کی فضاوں میں خوف کا راج ہے اور واحد خواہش کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں کامیابی ہے۔دنیا کے معتبر طبی جریدے "دی لانسیٹ" کے دو ہزار اٹھارہ میں جاری اشاریوں میں نوول کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے شدید متاثرہ ممالک امریکہ ،برطانیہ اور اٹلی صحت عامہ کی معیاری سہولیات کی فراہمی کے اعتبار سے دنیا کے اولین تیس ممالک میں شامل ہیں جبکہ اس وبا کو شکست دینے والا چین فہرست میں اڑتالیسویں درجے پر ہے۔لیکن امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک میں موجودہ وبائی صورتحال نے سنگین نقائص کی نشاندہی کی ہے اور اشاریوں اور عملی اقدامات میں واضح تضاد نظر آیا ہے۔
دنیا بھر میں صحت عامہ کے نظام کے لیے نوول کورونا وائرس کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں۔اس وقت عالمی سطح پر کووڈ۔19 کے انسداد کے لیے ٹریلین ڈالرز صرف کیے جا رہے ہیں لیکن سوال یہی ہے کہ کیا یہ رقوم پہلے ہی لازمی تیاریوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے تھی ؟ مثلاً شدید متاثر ملک اٹلی کی ہی اگر بات کی جائے تو یہاں گزشتہ تین برسوں سے صحت کے اخراجات میں مسلسل کمی آ رہی تھی۔فنڈنگ میں کمی سے مراد یہ بھی ہے کہ نوول کورونا وائرس کے حملے سے قبل بھی اٹلی کو ڈاکٹرز اور نرسوں کی شدید کمی کا سامنا تھا۔برطانیہ میں جہاں اس وقت سینکڑوں لوگ وائرس کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں ، یہاں قومی ہیلتھ سروے کے مطابق گزشتہ برس پندرہ فیصد سے زائد افراد کو علاج معالجے کے حصول کے لیے اٹھارہ ہفتے سے زائد کا انتظار سہنا پڑا۔جبکہ سال دو ہزار بارہ میں جب یہ نظام متعارف کروایا گیا تھا اُس وقت لوگوں کی یہ تعداد آٹھ فیصد تھی۔
امریکہ کی بات کی جائے تو یہاں صحت عامہ کے لیے دیگر دنیا کی نسبت سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے لیکن اس وقت نوول کورونا وائرس سے متاثرہ سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے ملکی اسپتالوں میں صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ماہرین اسے امریکہ میں "ہیلتھ سسٹم" کی بڑی ناکامی قرار دے رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں سامنے آنے والے سلسلہ وار حکومتی فیصلوں کی بابت سوالات اٹھ رہے ہیں۔ان میں سال 2018 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے قومی سلامتی کونسل کے ڈائریکٹوریٹ برائے گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی اینڈ بائیو ڈیفنس کی تحلیل بھی شامل ہے کیونکہ اس ادارے کے قیام کے مقاصد میں وبائی صورتحال یا عالمی وبا کی روک تھام میں معاونت فراہم کرناشامل تھا۔
عالمی سطح پر مختلف ممالک میں نوول کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاو نے طبی نظام کی قابلیت سے متعلق بھی اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔چین میں شدید متاثرہ شہر ووہان میں ابتدائی مرحلے میں طبی عملے اور بستروں کی کمی کا مسئلہ تھا ۔چار فروری کو ووہان میں دستیاب بیڈز کی تعداد صرف تین سو پانچ تھی جبکہ مصدقہ مریضوں کی تعداد انیس سو سے زائد تھی۔ملک میں جشن بہار کی وجہ سے اکثریتی فیکٹریوں میں پیداواری سرگرمیاں بھی معطل تھیں۔اس باعث آغاز میں طبی سازوسامان کی پیداوار اور ترسیل کا عمل سست روی کا شکار ہوالیکن چینی حکومت کے بر وقت اور مضبوط فیصلوں کی بدولت صنعتی اداروں میں پیداواری سرگرمیاں بحال کی گئیں ،عارضی اسپتالوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور ملک بھر سے بیالیس ہزار سے زائد طبی عملہ صوبہ حوبے اور ووہان روانہ کیا گیا جس کی وجہ سے صورتحال پر قابو پایا گیا ۔ یہاں صحت کے شعبے میں چینی نظام کی خوبی اور برتری بھی کھل کر سامنے آئی جس کی بناء پر چین نے نوول کورونا وائرس کو شکست دی ہے۔
انسداد عالمی وبا میں طبی عملہ اور طبی سازوسامان کلیدی عوامل ہیں۔امریکہ ،برطانیہ اور اٹلی کی نسبت چین میں آبادی کے تناسب سے اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد نمایاں طور پر کم ہے ، اسی طرح طبی عملہ بھی کم ہے اور فی کس دو سو تیرہ افراد کے لیے ایک طبی ماہر دستیاب ہے۔ لیکن یہاں اہم بات موجود وسائل کے موثر اور درست استعمال کی ہے۔چین نے وبا کے خلاف جنگ میں طبی سازوسامان کی تیز رفتار پیداوار ،ادویات کی فراہمی اور طبی عملے کی موزوں تعیناتی سمیت دیگر افرادی ،مالیاتی اور تیکنیکی وسائل کو احسن انداز سے استعمال میں لایا جو دنیا میں ایک کامیاب ماڈل ثابت ہوا۔ اس وقت چین وبا کے خلاف جنگ میں فتح سمیٹنے کے ساتھ ساتھ انسداد وبا کی عالمی کوششوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو نا صرف طبی سازوسامان فراہم کر رہا ہے بلکہ چینی طبی ماہرین مشاورت و رہنمائی کے لیے مختلف ممالک میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
نوول کورونا وائرس نے عالمگیر سطح پر صحت عامہ کےکمزور نظام میں بہتری کے لیے ایک مضبوط جواز فراہم کیا ہے اور عالمی حکمرانوں کو باور کروایا ہے کہ اپنی ترجیحات میں ضروری تبدیلی لائیں تاکہ کل پھر کسی نوول کورونا وائرس کے باعث پریشانی میں مبتلا نہ ہونا پڑے۔وبائی صورتحال نےپوری انسانیت کو یہ درس بھی دیا ہے کہ آپسی اختلافات ،سیاسی مفادات اور باہمی تنازعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ اقدامات ، عالمگیریت کے موجودہ دور کا بنیادی تقاضا ہیں اور اسی میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
شاہد افراز خان کے کالمز
-
چین کا معاشی آوٹ لُک 2022
پیر 10 جنوری 2022
-
افغانستان میں چین کے انسان دوست اقدامات
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
چین کا عوامی حاکمیت کا تصور
منگل 7 دسمبر 2021
-
اقتصادی تعاون کا نیا ماڈل
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
جدوجہد سے عبارت 100 سال
جمعہ 19 نومبر 2021
-
حقیقی وژنری قیادت
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
عالمی سطح پر"میڈ اِن چائنا" کی اہمیت
ہفتہ 6 نومبر 2021
-
علاقائی انضمام سے مشترکہ ترقی کا خواب
جمعہ 29 اکتوبر 2021
شاہد افراز خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.