
چینی عوام کی فاشزم کے خلاف فتح ، ایک تاریخی جائزہ
بدھ 2 ستمبر 2020

شاہد افراز خان
(جاری ہے)
تاریخی حقائق کے مطابق اس جنگ میں 35 ملین چینی شہریوں نے اپنی جانیں قربان کیں جبکہ اقتصادی اعتبار سے چین کو 600 بلین ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔چینی عوام نے مسلسل آٹھ برسوں تک جاپانی جارحیت کا ڈٹ کر سامنا کیا اور بلاآخر فتح حاصل کی۔چین کی اس مزاحمتی جنگ کو ایک منصفانہ جدوجہد اور اپنی سالمیت اور قومی وقار کا عظیم دفاع قرار دیا گیا۔1937 سے 1945 تک لڑی جانے والی یہ جنگ چین کی جدید تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔اس جنگ نے چینی عوام کو جذبہ حب الوطنی سے سرشار کیا اور مخالف قوتوں کے خلاف اتحاد اور یکجہتی سے صف آراء ہونے کی ترغیب دی۔چینی عوام کی یہ مزاحمت صرف چینی عوام اور جاپانی افواج تک محدود ایک جنگ نہ رہی بلکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران فاشسٹ مخالف جدوجہد کو بھی چینی عوام کی قربانیوں کی بدولت ایک نئی طاقت ملی۔ چین کا یہ محاز دوسری عالمی جنگ میں فیصلہ کن فتح کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوا۔
یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں جاپان مخالف قوتوں نے انتہائی نامساعد حالات میں جاپانی جارحیت کا ڈٹ کر سامنا کیا مگر ہمت نہیں ہاری۔چین کا مقابلہ عسکری قوت کے لحاظ سے ایک مضبوط دشمن سے تھا مگر چینی عوام کا مادروطن کے دفاع کا جذبہ ایک آہنی چٹان ثابت ہوا جس پر غلبہ پانا جاپانی فوجیوں کے بس میں نہ تھا۔ اگر شنگھائی معرکے کی ہی بات کی جائے تو اُس وقت جاپان کے پاس فضائی طاقت چین سے کئی گنا بہتر تھی مگر چین نے تین ماہ تک بھرپور مقابلہ کیا اور اس جنگ میں تقریباً تین لاکھ چینی فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور جاپان کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ ہم صرف تین ماہ میں پورے چین پر قبضہ کر لیں گے۔اس جنگ میں جاپانی فوج نے ظلم کے ایسے پہاڑ توڑے جنہیں رہتی دنیا تک سیاہ الفاظ میں لکھا اور یاد رکھا جائے گا۔ جاپانی فوجی دستوں کا اُس وقت چین کے دارالحکومت نان جنگ میں چھ ہفتوں تک قتل عام ، خواتین کی عصمت دری اور ظلم و بربریت تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ان چھ ہفتوں کے دوران تین لاکھ چینی شہریوں کو قتل کر دیا گیا۔ووہان کی جنگ میں بھی تقریباً چار لاکھ چینی فوجیوں نے اپنی جانیں پیش کرتے ہوئے جاپان کی پیش قدمی مضبوطی سے روکی۔
چینی عوام کی مزاحمتی جنگ سے یورپ اور پیسفک محازوں پر فاشسٹ مخالف جدوجہد کو ایک نئی طاقت اور حمایت ملی جبکہ جاپانی سامراج کا دنیا پر غلبہ پانے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ جاپان کا سویت یونین پر فوج کشی کا منصوبہ "ناردرن مارچ" بھی ناکامی سے دوچار ہوا ۔ اس جنگ کا سب سے اہم نکتہ یہ رہا کہ چینی عوام نے جانوں کی قربانیاں دیتے ہوئے جاپان کے لاکھوں فوجیوں کو چینی محاز پر روکے رکھا اور مشرق بعید اور بحرالکاحل کی جانب جاپانی فوجی دستوں کی پیش قدمی روک دی۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اتحادی افواج پر دباو کافی حد تک کم ہو گیا اور جب "پیسفیک وار "شروع ہوئی تو اُس وقت جاپان کے فوجی دستوں کی کل تعداد تقریباً اکیس لاکھ تھی جس میں سے لگ بھگ چودہ لاکھ فوجی چین میں موجود تھے جبکہ صرف چار لاکھ جاپانی فوجی بحرالکاحل کے لاکھوں مربع کلومیٹر جنگی محاز پر لڑ رہے تھے۔یوں یہ تاریخی اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ "پیسفیک وار " کے خطرناک ترین مرحلے میں 67فیصد جاپانی افواج تو چینی عوام کی عظیم مزاحمتی جنگ میں الجھ کر رہ گئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ چین نے امریکہ کی قیادت میں دیگر اتحادی افواج کو مضبوط ردعمل کے لیے ایک بنیاد فراہم کر دی۔اتحادی قوتوں کے سربراہان بھی چین کی اس جدوجہد کے مداح رہے ہیں اور اُس وقت امریکی صدر فرینکلین روزویلیٹ نے ایک موقع پر کہا کہ اگر چین جاپانی جارحیت کا راستہ نہ روکتا تو جاپانی فوجی دستے باآسانی آسٹریلیا اور انڈیا پر فوری قبضہ کر لیتے اور مشرق وسطیٰ کی جانب پیش قدمی جاری رکھتے۔ اس طرح چین فاشزم کے خلاف ایک مضبوط قوت بن کر ابھرا۔دسمبر 1943 میں چین ،برطانیہ اور امریکہ نے ایک مشترکہ قاہرہ اعلامیہ جاری کیا جس میں فاشسٹ مخالف جدوجہد میں جاپانی سامراج کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے اصولوں کا تعین کیا گیا جبکہ جاپان کی جانب سے شکست تسلیم کرنے کے حوالے بھی ایک مشترکہ اعلامیہ جولائی1945میں جاری کیا گیا جسے عالمگیر حمایت ملی۔چین کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں نے نہ صرف فاشسٹ قوتوں کو ایک مضبوط مزاحمتی پیغام دیا بلکہ فاشزم سے چھٹکارے کے خواہش مند تمام گروہوں کے دل جیت لیے اور انہیں امید کا ایک توانا پیغام دیا ۔چینی عوام کی جدوجہد آج بھی دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ اپنے جائز حقوق کے دفاع کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جا سکتا ہے اور انسانیت مزید کسی سامراجی قوتوں کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے چین کی تیزرفتار ترقی بھی واضح عکاس ہے کہ فاشسٹ قوتوں سے نجات ہی دنیا میں امن و استحکام اورمشترکہ ترقی کی بنیاد ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد افراز خان کے کالمز
-
چین کا معاشی آوٹ لُک 2022
پیر 10 جنوری 2022
-
افغانستان میں چین کے انسان دوست اقدامات
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
چین کا عوامی حاکمیت کا تصور
منگل 7 دسمبر 2021
-
اقتصادی تعاون کا نیا ماڈل
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
جدوجہد سے عبارت 100 سال
جمعہ 19 نومبر 2021
-
حقیقی وژنری قیادت
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
عالمی سطح پر"میڈ اِن چائنا" کی اہمیت
ہفتہ 6 نومبر 2021
-
علاقائی انضمام سے مشترکہ ترقی کا خواب
جمعہ 29 اکتوبر 2021
شاہد افراز خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.