چین کا ترقی پزیر ممالک کے لیے تحفہ

ہفتہ 7 اگست 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

ابھی حال ہی میں کووڈ۔19  ویکسین تعاون کے حوالے سے بین الاقوامی فورم کا پہلا اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں شرکاء نے عالمی سطح پر صحت عامہ کے بہتر تحفظ کی خاطر ویکسین کی اہمیت کی توثیق کی ہے ۔چین کی زیر صدارت اس اہم عالمی سرگرمی کے شرکاء نے  ترقی پذیر ممالک میں ویکسین کو قابل رسائی اور سستی بنانے ، صحت کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ویکسین سازی کے لیے مزید کوششوں پر اتفاق کیا اور "ویکسین قوم پرستی" کی شدید مخالفت ظاہر  کی۔

اس سے قبل رواں سال مئی میں گلوبل ہیلتھ سمٹ کے دوران چین کی جانب سے انسداد وبا کی جنگ میں عالمی حمایت کے لیے اہم اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا جس میں ویکسین تعاون کے لیے بین الاقوامی فورم کا قیام بھی شامل ہے۔ اس فورم کے تحت ویکسین کی تیاری اور ترقی سے وابستہ ممالک ، کمپنیاں اور سٹیک ہولڈرز کے مابین تبادلہ خیال سے عالمی سطح پر ویکسین کی منصفانہ اور معقول تقسیم کو فروغ مل سکے گا۔

(جاری ہے)


 اس وقت عالمی سطح پر وبائی صورتحال میں بدستور اتار چڑھاؤ آ رہا ہے  اور وائرس میں تغیر کے باعث بھی صورتحال کافی سنگین ہے۔ دوسری جانب انسداد وبا کی اجتماعی کوششیں عالمی تعاون کی متقاضی ہیں جس میں دنیا کے بڑے ممالک بالخصوص امریکہ اور چین کا نمایاں کردار ہے۔ چین ہمیشہ سے انسانی صحت کےہم نصیب معاشرے  کے تصور پر عمل پیرا رہا  ہے ، چین نے دنیا  بالخصوص ترقی پزیر ممالک کو بروقت ویکسین فراہم کی ہے اور فعال طور پر ویکسین کی  اشتراکی پیداوار کو فروغ دیا ہے۔

چین کی کاوشوں کی بدولت اس وقت ویکسین کو  عالمی سطح پر ایک "پبلک پروڈکٹ" کا درجہ ملنے میں مدد مل رہی ہے۔ چین  واضح کر چکا ہے کہ وہ ترقی پزیر ممالک کو وبا سے نمٹنے میں ہر ممکن مدد کی فراہمی جاری رکھے گا۔چینی صدر شی جن پھنگ نے مذکورہ فورم کے موقع پر یہ اعلان کیا کہ چین رواں سال دنیا کو ویکسین کی دو ارب خوراکیں فراہم کرنے کی کوشش کرے گا جبکہ ویکسین تعاون کے عالمی منصوبے "کووایکس" کے تحت ترقی پزیر ممالک کے لیے 100 ملین ڈالرز عطیہ کیے جائیں گے۔


حقائق کے تناظر میں جہاں اس وقت بین الاقوامی سطح پر  ویکسین کی منصفانہ اور شفاف تقسیم کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے وہاں ویکسین ساز بڑے ممالک کو ترقی پذیر ممالک کی ہنگامی طلب کو مدںظر رکھتے ہوئے ویکسین کی پیداواری صلاحیت کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔عالمی انسداد وبا  تعاون کی بات کی جائے چین کی شراکت کئی پہلوؤں سے نمایاں ہے مثلاً نوول کورونا وائرس کی جینیاتی ساخت پرمبنی معلومات کا دنیا کے ساتھ مستقل تبادلہ ، ضرورت مند ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کی فراہمی ، ویکسین سازی میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ فعال تعاون  ، اور اقوام متحدہ کے امن دستوں ،عالمی تنظیموں ، مختلف ممالک کی افواج اور بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کو فعال طور پر ویکسین فراہم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

چین ستمبر 2020 سے ضرورت مند ممالک کو ویکسین فراہم کر رہا ہے۔ چین نے 100 سے زائد ممالک کو ویکسین عطیہ کی ہے اور 60 سے زائد ممالک کو ویکسین برآمد کر رہا ہے۔حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ تاحال چین کی جانب سے مجموعی طور پر ویکسین کی 770 ملین سے زائد خوراکیں دنیا کو فراہم کی جا چکی ہیں ،چین اس اعتبار سے دنیا میں سرفہرست ہے۔اس وقت 100 سے زائد ممالک چینی ساختہ چار ویکسینز کے استعمال کی منظوری دے چکے ہیں جبکہ بین الاقوامی حکام نے چینی ویکسینز  کو محفوظ اور موئثر قرار دیا ہے۔

چین نے حال ہی میں  کووڈ۔ 19 ویکسین تعاون کو فروغ دینے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک کے لیے ایک انیشیٹو کا آغاز کیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس میں شامل ہو سکیں۔
چین واضح کر چکا ہے کہ وہ بین الاقوامی ویکسین تعاون کے عمل کو آگے بڑھانے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔

چین کوشاں ہے کہ ویکسین تعاون کے تحت دیگر ممالک کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر ویکسین کی منصفانہ تقسیم اور اسے قابل رسائی بنانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں ، ترقی پزیر ممالک کے ساتھ یکجہتی اور تعاون کے لیے نئی ​​قوت محرکہ فراہم کی جائے  اور وبا کے خلاف انسانیت کی جلد فتح کے لیے نئی ​​شراکت داری تشکیل دی جائے۔اس ضمن میں بلاشبہ ویکسین زندگی بچانے کا ایک ہتھیار ہے ،اسے نہ تو کسی ایک ملک کے لیے ذاتی فوائد حاصل کرنے کا ذریعہ بننا چاہیے اور نہ ہی ویکسین فراہمی کا عمل کسی "جیو پولیٹیکل گیم" کا متحمل ہو سکتا ہے۔

وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہے اور وبا کے سرحد پار پھیلنے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مشترکہ روک تھام اور کنٹرول کی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :